حجاب پر پابندی بھارت میں بڑھتی مذہبی انتہا پسندی امن کیلئے خطرہ
تجزیہ محمد اکرم چودھری
اتر پردیش میں بھی حجاب پر پابندی، بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی سے ناصرف عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے بلکہ یہ مذہبی اساس پر بھی حملہ ہے۔ نریندرا مودی کی حکومت میں اقلیتوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں سکھوں اور عیسائیوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کرناٹک کے بعد اتر پردیش کے کالج میں بھی حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ کرناٹک میں ایک خاتون نے حجاب پہننے پر پابندی کی وجہ سے یہ لکھتے ہوئے کہ حجاب اتارنے سے عزت نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اتر پردیش میں حجاب پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین پر تشدد بھی کیا گیا۔ بھارتی حکومت اس معاملے میں ناصرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے بلکہ وہ اس آگ کو پھیلنے کا سامان فراہم کر رہی ہے۔ نریندرا مودی کی حکومت میں اقلیتوں کے تحفظ کے بجائے زندگی مشکل بنائی جا رہی ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس کے پہلے نو مہینوں میں عیسائیوں پر تین سو سے زیادہ حملے ہوئے جن میں کم از کم بتیس حملے کرناٹک میں ہوئے۔رپورٹ کے مطابق عیسائی مخالف تشدد کے کل تین سو پانچ واقعات میں سے شمالی ہندوستان کی چار ریاستوں میں کم از کم ایک سو انہتر واقعات درج کیے گئے۔ چھیاسٹھ بی جے پی کے زیر اقتدار اتر پردیش میں، سینتالیس کانگریس کی حکومت والی چھتیس گڑھ میں، تیس قبائلی اکثریتی جھارکھنڈ میں اور بی جے پی کی حکومت والی مدھیہ پردیش میں تیس واقعات رپورٹ ہوئے۔کم از کم نو ہندوستانی ریاستوں نے تبدیلی مذہب قوانین کی مخالف کی ہے۔ 28 نومبر 2021 کو دہلی میں ایک نئے افتتاح شدہ چرچ کو اپنی پہلی اتوار کی خدمت میں خلل اور توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا جب بجرنگ دل کہلانے والے عسکریت پسند ہندو قوم پرست گروپ کے اراکین نے اجلاس پر دھاوا بول دیا۔