بڑھتی ہوئی شرح طلاق اور لاابالی خواتین
وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطی امور مولانا محمد طاہر محموداشرفی نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشرہ کی تعمیر میں تعلیم یافتہ عورت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آئین پاکستان خواتین کو مکمل حقوق فراہم کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے’’ معاشرے میں خواتین اسلامک سکالرز کے کردار ‘‘کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا طاہر اشرفی ماشاء اللہ جامعہ اشرفیہ سے تاریخ التحصیل ہیں۔ اور انہوں نے بجا طور پر نشان دہی کی کہ ہمارے یہاں طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ فیملی کورٹس میں عورتوں کے وکلاء کی طرف سے خلع لینے کے بہت زیادہ کیسز آ رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے غالباً 2016ء میں متعلقہ حکام نے ہدایت جاری کی تھی کہ فیملی کیسز کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کر دیا جائے لیکن بوجوہ اب تک اس پر پورے طور پر عمل نہیں ہو سکا۔ گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن سروے برائے 2020 ء کے مطابق 58 فیصد شہریوں کی رائے میں ملک میں شرح طلاق بڑھ گئی ہے۔ مولانا کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے کی تعمیر میں تعلیم یافتہ عورت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ سچ کہتے ہیں ۔ ہمارے یہاں خواتین ہر شعبہ زندگی میں کام کر رہی ہیں۔ اور انہوں نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ وہ اپنی محنت اور لیاقت سے کمپیٹیشنر بھی بنی ہیں اور گریڈ 22 تک بھی پہنچی ہیں۔ وہ پی۔ ایچ۔ ڈی ڈاکٹر بھی بنی ہیں اور بڑی تعداد میں میڈیکل ڈاکٹر ، وکیل اور پائلٹ بھی بنی ہیں۔ صحافت اور سیاست کے شعبہ میں بھی اعلی مقام حاصل کیا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ خاتون محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم رہی ہیں۔ حال میں ایک ماہر قانون خاتون کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ عدالت عظمی کا لج بنایا گیا ہے۔ ادب میں ہماری خواتین اپنی تخلیقات پیش کر کے بین الاقوامی معیار کا ادب تخلیق کیا ہے اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ آرٹ میں سٹیج ڈٖرامہ ہو ، ٹی وی ڈرامہ یا فلم کا میڈیم، ہماری خواتین میں بڑا ٹیلنٹ ہے۔ اور انہوں نے ان تینوں میڈیم میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔
مولانا نے بجا طور پر کہا ہے کہ آئین پاکستان، خواتین کو مکمل حقوق فراہم کرتا ہے۔ اسلئے کہ ہمارے یہاں خواتین کو دوسرے اسلامی ممالک کے مقابلہ میں زیادہ حقوق حاصل ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ حضرت خدیجہ ؓنے سب سے پہلے اسلام کی گواہی دی، اور مزید کہا کہ خلفائے راشدین ؓکے دور میں خواتین نے اہم فرائض سرانجام دیئے۔ اسلام عورت کو تعلیم حاصل کرنے اور کاروبار کرنے سے نہیں روکتا۔ حضرت خدیجہؓ تجارت کیا کرتی تھیں۔ اور محسن انسانیت نبی کریمؐ نے فرمایا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔
مولانا نے کتنی خوبصورت یاد تازہ کی ہے کہ ایسا اسلامی دور میں ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر خوشیاں منائی جائیں۔ موجودہ زمانے میں صرف لڑکے کی پیدائش پر لڈو بانٹے جاتے ہیں۔کئی لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر ناک بھوںچڑھاتے ہیں۔ میرے خیال تو لڑکی پیدا ہونے پر بھی لڈو بانٹنے چاہئیں کہ لڑکیاں اﷲ کی رحمت ہوتی ہیں۔ یہ جو نئی نئی روحیں دنیا میں آتی ہیں کیا‘ اس میںعورت کا بھی اتنا ہی کردار نہیں ہے جتنا مرد کا؟ اور زندگی جو اربوں سال کا سفر کرکے موجودہ زمانہ تک پہنچی ہے تو کیا وجود زن کے بغیر ایسا ہوناممکن تھا؟
وزیراعظم عمران خان کی بھی یہ پالیسی ہے کہ خصوصاً تعلیم یافتہ خواتین کو قومی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے مواقع دیئے جائیں اور انکی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین اس وقت ملکی آبادی کا 51 فیصد ہیں۔ ان کی اس کثیر تعداد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاً پڑھی لکھی خواتین کو ترقی کے مواقع دیئے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں کئی اداروں میں خواتین کو سربراہ بنایا گیا ہے۔ سی۔ ایس۔ ایس کے امتحانات میں خواتین کا کوٹہ پانچ فیصد سے دس فیصد کر دیا گیا ہے۔بہرحال معاشرے میں طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔