• news

اْردو ادب کے انمول رتن

شاعری دل کی آواز اور رْوح کا نغمہ ہے، اگرچہ نثر کا اپنا ایک مقام ہے لیکن کم الفاظ میں بہت بڑی بات کہہ دینا شاعر ہی کا کمال ہے۔ دو مصرعوں میں عمیق راز بیان کردینا معمولی بات نہیں ہے۔ اْردو ادب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کو اعلیٰ پائے کے شاعر نصیب ہوئے۔ کہتے ہیںکہ غالب کا ہے انداز بیان کچھ اور تو غلط نہیں کہتے۔ 7ستمبر1797ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے مرزا اسداللہ غالب کو وہ بے پایاں عزت، شہرت اور محبت نصیب ہوئی جو کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا کرتی ہے۔ جب بھی اْردو شاعری کا تذکرہ ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا مرزاکے نام اور کلام کو فراموش کرنا تو درکنار اْن کے نام کے بغیر شاعری اور اْردو ادب کی تاریخ لکھنا بھی ناممکن ہوگا۔ آپ مرزا صاحب کا اکلوتا اْردو دیوان کھولئے ہر مصرع یہ لفظ ہر بار آپ پر نئے معنی ومفاہیم کے درواکرتا چلاجائے گا۔ آگرہ میں جنم لینے والے مرزا کی شہرت برصغیر کے کونے کونے میں تو پھیل ہی گئی بعد میں سرحدوں کی قید توڑ کر دور دور تک ہر خاص و عام میں مقبول عام ہوئے۔
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ توپیغامِ زبانی اور ہے
عاشقی صبر طلب اور تمنابے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے تم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرارہوتا
دوچار اشعار کا حوالہ دینا بھی ایک مشکل کام ہے۔ جس شاعر کا ہر ہر شعر سونے میں تولے جانے کے قابل ہو۔اْس میں سے چند ایک کا انتخاب کرنا کافی مشکل ہے۔ اٹھارہویں صدی میں بھی اگرچہ شعراء کاطبقہ لوگوں کی طرح طرح کی باتوں کا شکار رہا لیکن میں اب کے حالات سے اس وقت کا موازنہ کروں تو تب لوگوں میں اعلیٰ درجے کا ادبی شعور تھا۔ پھر اٹھارہویں صدی باقی ادوار سے بہت سارے شعبوں میں الگ سے چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بہت ساری ایجادات کا زمانہ تھا۔ آج بھی نامور لوگوں کی لمبی فہرست کا تعلق اٹھارہویں صدی سے نکلتا ہے۔ مرزا کے دور کو سنہری دور کہا گیا۔ سچ کہیں تو آج بھی اتنا جینئس اور جینوئین شاعر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اہلیان ادب نے مرزا کا مقابلہ کئی شعراء سے کیا۔ کچھ نے تو دیگر شعرا کو ان کے مقابلے میںبڑا شاعر کہنے کی بھی جسارت کی۔ لیکن اتنی مضبوط عمارت کی کوئی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکا۔
ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں
دل خوش ہواہے راہ کو پرخار دیکھ کر
مرزا غالب کے منطقی اور استدلالی انداز بیان نے شاعری کو نیا رنگ روپ دیا۔ جذباتیت کے ساتھ انا کا دامن بھی کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا جو اْن کی خودداری کو ظاہر کرتی ہے۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلفوں کے سر ہونے تک
15فروری کو یہ بلند پایہ شاعر تکلیفوں اور مصائب کا سامنا کرتے کرتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ فروری غالب کے بچھڑنے کامہینہ ہے۔ اور پھرفروری فیض احمد فیض کو ہم سے ملانے کا مہینہ بھی بن جاتا ہے۔ مرزا اسداللہ خاں غالب اور علامہ اقبال کے بعد یقینا" سب سے زیادہ جس شاعر نے شہرت پائی وہ فیض احمد فیض ہیں۔
مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
فیض احمد فیض13فروری1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ اہم شخصیات کا شہر ہے۔ زبان میں شوخی اور مٹھاس تو تھی ہی لیکن سچ کے کڑوے زہر کو امرت روپ دے دیا۔ فیض کو مارکسی کہا جاتا ہے۔ مظلوم اور غریب عوام کا دکھ فیض کے ہاں نظر آتا ہے۔رومانوی شاعری میں بھی وہ اپنا جواب نہیں رکھتے۔ منظر نگاری ایسی کمال کی کرتے ہیںکہ بندہ اپنے آپ کو اسی منظر میںموجود پاتا ہے۔ فیض کے جذبات میں اْسے اپنے جذبات و احساسات جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہونے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
کچھ عرصہ محبت سے بھرپور شاعری کرنے والے شاعر کا دل عوام اور غریب لوگوں کی مشکلات کے احساس میں اس طرح مبتلا ہوا کہ وہ کہنے پر مجبور ہوگئے
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ہٹلر نے روس پر حملہ کردیا تو فیض کا لج کی ملازمت چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہوگئے۔کیپٹن کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ 1944ء  میں آپ کو لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا۔ لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد آپ فوج چھوڑ کر پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بن گئے۔1951ء  میں فیض احمد فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں جیل بھیج دیا گیا۔ انہوں نے اپنی زیادہ ترنظمیں جیل کی چار سالہ زندگی کے دوران ہی لکھیں۔
مزدوروں کے مسائل میں ہمیشہ دلچسپی رہی لہذا کئی کئی ٹریڈ یونینز کے صدر رہے۔ یہ احساس اور نرم دلی ان کی شاعری میں نمایاں دکھائی بھی دیتی ہے۔
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سارکھ لو اپنے ویرانے کا نام
دل نااْمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

ای پیپر-دی نیشن