• news

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا مشکور ہوں مڈل آرڈر بلے باز عمر اکمل کی باتیں

حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ بورڈ گزشتہ کئی برس سے مڈل آرڈر میں پاور ہٹر اور میچ فنش کرنے والے بیٹرز  تلاش کر رہا ہے اس سلسلے میں کئی کھلاڑیوں کو مواقع دئیے گئے لیکن کوئی بھی تسلسل کے ساتھ عمدہ کھیل پیش کرنے میں ناکام رہا۔ افتخار احمد ،خوشدل شاہ اور آصف علی سمیت جن کھلاڑیوں کو بھی محدود اوورز کی کرکٹ میں موقع دیا گیا وہ توقعات پر پورا نہیں اُتر سکے۔ ان کھلاڑیوں کی کارکردگی میں اتار چڑھائو رہا جبکہ ساتھ ہی مشکل حریفوں کے خلاف خامیاں واضح طور پر نظر آئیں۔ آصف علی ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں نسبتاً بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتے رہے جبکہ ان دنوں جاری پاکستان سپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن میں خوشدل شاہ بھی بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں لیکن اب بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ جب یہ کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس جائیں گے تو یہی کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ افتخار احمد کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ایک پاور ہٹر کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جبکہ وہ ایک مختلف بلے باز ہیں۔ اُن کی ناکامی یا توقعات کے برعکس کارکردگی کی بڑی وجہ نامناسب استعمال ہے۔ وہ لمبی اننگز کھیلنے والے بلے باز ہیں جبکہ انہیں بیٹنگ کے لیے وہ نمبر نہیں ملتا جس کی وہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر مڈل آرڈر میں پاورہٹر یا میچ فنش کرنے کی صلاحیت رکھنے والے بلے باز کا بحران پاکستان کرکٹ بورڈ کا پیدا کردہ ہے۔ مکی آرتھر کے دور سے شروع ہونے والا یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ مکی آرتھر نے عمر اکمل کو ڈراپ کیا اور آج تک وہ دوبارہ ٹیم کے مستقل رکن نہیں بن سکے حالانکہ محدود اوورز کی کرکٹ میں وہ پاکستان میں اپنی طرز کے منفرد بلے باز ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کا کہنا ہے کہ ’’عمر اکمل کے پاس جتنے شاٹس ہیں اور جس طرح مشکل بائولنگ کے خلاف بھی وہ آزادانہ رنز کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں پاکستان میں اُن جیسا کوئی دوسرا بلے باز نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں جن کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا ہے وہ بھی اچھے ہونگے لیکن عمر اکمل اتنا عرصہ بین الاقوامی کرکٹ سے دور رہنے کے باوجود بھی سب سے بہتر ہیں اُن کا کسی سے کوئی موازنہ و مقابلہ نہیں ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے دو سال کے بعد جس طرح وہ کھیل کے میدان میں واپس آئے اور دلکش شاٹس کھیلے یہ اُن کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کمنٹیٹرز نے بھی جو الفاظ ادا کیے وہ ساتویں سیزن میں اس سے پہلے کسی بلے باز کی بیٹنگ پر سننے کو نہیں ملے۔ اب  عمر اکمل نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس طرح  اپنے آپ کو اس قابل بناتے ہیں کہ دوبارہ اُس جگہ کھیلیں جس کی وہ اہلیت رکھتے ہیں،،۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے عمر اکمل کو شروع میں موقع نہیں دیا لیکن جب انہیں اسلام آباد یونائٹیڈ کے خلاف پلینگ الیون میں شامل کیا گیا تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا کہ وہ ٹیم کو مشکل حالات سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مڈل آرڈر بیٹر عمر اکمل کا کہنا ہے کہ ’’دو سال تک کھیل کے میدان سے دور رہنا بہت تکلیف دہ تھا جو وقت میں نے باہر بیٹھ کر گزارہ ہے وہ تکلیف بیان نہیں کی جا سکتی، ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ سوچنا شروع کر دیا کہ دوبارہ کرکٹ نہیں کھیلوں گا۔میں اپنی فیملی ، قریبی دوستوں اور پرستاروں کا مشکور ہوں جنہوں نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا اور حوصلہ افزائی کی ، ایک موقع پر میری بیٹی نے بھی کہا کہ بابا ہم آپ کو دوبارہ کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مینجمنٹ نے بھی بہت ساتھ دیا بالخصوص ندیم عمر ، سر ویوین رچرڈز، معین خان ، شاہد آفریدی اور عمر گل نے بھی پریکٹس سیشنز میں بہت حوصلہ افزائی کی۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر نے کہا تھا ہم آپ کو دوبارہ ٹیم میں شامل کریں  اور موقع دیں گے۔ دو سال بعد پہلے میچ میں بیٹنگ کے لیے جانے سے پہلے شاہد آفریدی اور عمر گل نے بہت حوصلہ افزائی کی، انہوں نے کہا کہ تم نے اپنے کیریئر کے دوران ایسے حالات میں کئی مرتبہ پاکستان ٹیم اور فرنچائز کرکٹ میں مختلف ٹیموں کے لیے میچ وننگ اننگز کھیلی ہیں۔ جب  بیٹنگ کے لیے جا رہا تھا تو صرف اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ پہلا بال کھیلا تو آسمان کی طرف دیکھ کر بھی اللہ کا شکر ادا کیا ، اُس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ 
خوشی کی بات یہ ہے کہ میری کارکردگی سے ٹیم کو فائدہ ہوا اور ہم نے فتح حاصل کی۔ جس گیند پر آئوٹ ہوا وہ ذرا جلدی کھیل گیا حالانکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ  سلو بال ہے۔ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے بھی اس میچ میں بہت شاندار بیٹنگ کی اور انہیں بھی کریڈٹ جاتا ہے۔ جب میں آئوٹ ہو کر واپس گیا تو ٹیم مینجمنٹ نے  کہا کہ تم نے ٹیم کو دبائو سے نکالا ہے۔ جب علم ہوا کہ کوئٹہ کی طرف سے ساتویں سیزن کا پہلا میچ کھیل رہا ہوں تو اپنے والد صاحب کو فون کیا تو وہ بہت خوش ہوئے انہوں نے دعائیں دیں اور کہا کہ دو سال بعد یہ موقع آیا ہے کہ تم کوئی میچ کھیل رہے ہو میرا معمول ہے کہ میچ سے پہلے اپنے والدین کو فون کرتا ہوں۔ والدہ کی بھی بہت کمی محسوس کررہا ہوں پھر  اپنی اہلیہ کو فون کیا سب لوگ بہت خوش تھے۔ اب میرا مقصد پی ایس ایل کے باقی میچز میں ٹیم کے لیے بہتر کھیل پیش کرنا  اور آنے والے دنوں میں جہاں کہیں کرکٹ کھیلنے کاموقع ملے اس سے بہترین انداز میںفائدہ اٹھانا ہے۔ میرا سب سے بڑا ہدف تو دوبارہ پاکستان ٹیم کی نمائندگی ہے پوری کوشش کروں گا کہ اپنے کھیل سے سلیکٹرز کو متاثر کروں اور اپنے کھیل سے اعتماد حاصل کروں۔ مشکل وقت میں میرے کلب  کرکٹ سینٹر کی انتظامیہ نے بہت تعاون کیا اور کھیل میں واپسی کے بعد ٹریننگ کی سہولیات فراہم کیں جبکہ ندیم عمر کی درخواست پر نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر کے ڈائریکٹر ندیم خان نے بھی بہت تعاون کیا۔ کچھ ساتھی کرکٹرز یا کوچز کی طرف سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جن کا کھیل کے بجائے ذاتی زندگی سے تعلق ہوتاہے۔ میری گزارش ہے کہ ایسی باتوں سے گریز کیا جائے اور میری کرکٹ کے حوالے سے بات کی جائے اگر خالصتاً میری کرکٹ پر بات کی جائے گی تو اچھا لگے گا اور مجھے کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ ذاتی زندگی اور کھیل کو ہمیشہ الگ الگ ہی رکھا جانا چاہیے جو لوگ انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور میرے بارے منفی باتیں کرتے ہیںوہ یاد رکھیں کہ میرے پاس بھی کہنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن مجھے ساتھی کرکٹرز کی فیملیز کا خیال آتا ہے تو خاموش رہتا ہوں۔ جن لوگوں نے گزشتہ دو برس میں میرے بارے حقائق جانے بغیر سخت بیانات دئیے اُن سب کو اپنی کارکردگی سے جواب دونگا۔ کرکٹ سے دور رہ کر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے پہلے بغیر سوچے سمجھے کئی فیصلے کر لیتا تھا لیکن اب کوئی بھی فیصلہ سوچے سمجھے اور تمام پہلوئوںکاجائزہ لیے بغیر نہیں کرتا میں ایک مرتبہ پھر پاکستان سپر لیگ میں اپنی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اُن کے مالک ندیم عمر کا مشکور ہوں جنہوں نے میری صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ 

ای پیپر-دی نیشن