عمران کا دورہ روس کامیاب ہوگا، کشمیر میں تکلیف دہ صورتحال دونوں ملک حل نکالیں:روسی سفیر
اسلام آباد (عترت جعفری+ سلمان مسعود) پاکستان میں روس کے سفیر ڈانیلا وی گینچ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس کامیاب ہو گا۔ عمران خان کرکٹ کے ساتھ پاکستان میں نئی سوچ کے بھی‘ لیجنڈ‘ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں تکلیف دہ انسانی صورت حال ہے، مسئلہ کشمیر دوطرفہ ہے۔ دونوں ملک کے رہنما آؤٹ آف باکس حل نکالیں۔ امریکہ افغانستان کے فنڈز دے، جوبائیڈن انتظامیہ کمزور ہے، کانگریس کا الیکشن ہاریں گے۔ روس کی سرحد پر نیٹو کی مسلح فوج نہیں چاہتے۔ سٹیل ملز جیسے بڑے منصوبوں میں شامل ہو سکتے ہیں مگر یہ کاروبار ہونا چاہئے۔ ڈانیلا وی گینچ نے ان خیالات کا اظہار نوائے وقت، دی نیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس سے قبل روسی سفیر نوائے وقت آفس پہنچے۔ انتظامیہ نے ان کا استقبال کیا۔ سفیر نے ایم ڈی رمیزہ مجید نظامی سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یقینی طور پر اس دورے کا ایک مقصد دونوں ممالک کی لیڈر شب کے درمیان ذاتی تعلق کو استوار کرنا اور بین الاقومی اور دوطرفہ ایشوز پر پارٹنرشپ کو فروغ دینا بھی ہے۔ اس دورے میں ہر موضوع پر بات ہو گی۔ مثال کے طور پر جو دنیا میں پیش آنے والے واقعات، افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیالات ہو گا۔ دونوں ممالک کے معاشی روابط بھی زیر غور آئیں گے۔ وزیراعظم کا دورہ کوئی ہنگامی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ مکمل تیاری اور منصوبہ بندی کے تحت بات چیت ہو گی۔ ایسا نہیں ہے کہ عمران خان جنگ روکنے کے لئے ماسکو آ رہے ہیں بلکہ یہ دورہ دوطرفہ تیاری کے بعد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم روسی قوم پاکستان کی حکومت کے سربراہ عمران خان کی عزت کرتے ہیں، ہم ان کو بڑی شخصیت سمجھتے ہیں، عمران نہ صرف کر کٹ بلکہ پاکستان میں نئی سوچ کے بھی لیجنڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے عوام کی عزت کرتے ہیں وہ توقع کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روس کامیاب ہو گا۔ اور وہ وزیراعظم پاکستان کی صحت اور مستقبل کی کاوشوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں گیس پایپ لائن اور روسی سرمایہ کاری کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے کو ترجیح میں پہلے مقام پر دیکھتے ہیں۔ یہ اہم انرجی منصوبہ ہے، توقع کرتے ہیں کہ پاکستان اس منصوبے پر عمل کرے گا۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر فیصلہ کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ وہ ماہر نہیں ہیں۔ بہت سے سوالات اور ذمہ داریاں موجود ہیں۔ اس منصوبے کے متعلق لیگل ایشوز ہیں، ہمارے سامنے حکومت پاکستان کی منصوبے کے بارے میں تفصیلات کی حقیقی تصویر بھی موجود نہیں ہے۔ کیا یہ پبلک سیکٹر میں ہو گا، اس کی نجکاری ہو گی یا اس کی ادائیگی کون کرے گا۔ ہم سینٹاکلاز یا یو ایس ایس آر نہیں ہیں جو پیسے ہر جگہ پر پھینکیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ منصوبہ ہمارے لئے بھی مفید ہے یا نہیں، ہمارے لئے یہ پوری طرح بزنس کا فیصلہ ہے۔ اس بارے میں دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ اتنا فائدہ مند منصوبہ ہے تو چینی اس پر کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس طرح بہت سے سوالات ہیں۔ وہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ پائپ لائن کے منصوبے پر بات کر سکتے ہیں اور روس پاکستان کے ساتھ ہر موضوع پر بات کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے یہ خیالات ذاتی نوعیت کے ہیں کیونکہ ان کا ایریا بات چیت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور روس ہر سال دوستی جنگی مشقیں کرتے ہیں۔ گزشتہ سال یہ روس میں ہوئیں تھیں جبکہ اس سال یہ پاکستان میں ہوں گی، یہ سپشل فورسز کی مشقیں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوطرفہ بحریہ کی’ عربین مون سون‘ کے نام سے بھی مشقیں ہوتی ہیں۔ پاکستان کو روسی اسلحہ کی فروخت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم نے4سال قبل پاکستان کو ایم آئی 35 ہیلی کاپٹرز فراہم کئے تھے۔ روس کے وزیر دفاع کی پاکستان کی فوج کے ساتھ بات ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ اس ضمن میں کچھ ہو رہا ہو، تاہم ان کے علم میں نہیں ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان ایکسچینجز ہوتی رہی ہیں۔ روس کے دو فور سٹار جنرلز نے پاکستان کو دورہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کی افواج کی برانچوں کے درمیان انٹر ایکشن ہوتا رہتا ہے۔ حکومتی انٹیلی جنس اداروں کے درمیان میں بھی بات چیت ہوتی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی ملٹری اور سول بات چیت ہوئی، یہ سب بہت اچھی بات ہے، بھارت کے پاکستان کے بارے میں معاندانہ روئیے اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور روس کے کردار کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اس کا دو طرح سے جواب دیں گے۔ ایک ان کا سرکاری نقطہ نظر ہے اور وہ یہ ہے کہ سب کچھ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو رہا ہے، مقبوضہ کشمیر دوطرفہ تنازعہ ہے، اس لئے بھارت سے براہ راست بات کی جائے، چین سمیت دوسری عالمی طاقتیں اور ممالک راستہ نکالنے کے لئے ایسی ہی سوچ اپناتے ہیں۔ دوسرا ان کا ذاتی موقف ہے، مقبوضہ کشمیر میں تکلیف دہ انسانی صورت حال ہے، سول آزاد ی مفقود ہے، دنیا نہیں جانتی کہ وہاں اصل میں کیا ہو رہا ہے کیوں کہ سٹریٹس بند یا لاک ڈاؤن ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات برقرار رہیں گے جب تک پاکستان اور بھارت میں موجود زعماء آؤٹ آف باکس سلوشن نہیں نکالتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایل او سی کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرنا یا آزاد کشمیر کو پاکستان کو پانچواں صوبہ بنانا، وہ ایسا کوئی منظر نہیں دیکھ رہے کہ جس میں استصواب رائے ہو یا 1948ء کی یو این قرارادادوںکے تحت فیصلہ کا امکان بہت کم ہے، تاہم وہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کو سمجھتے ہیں تاہم ہر گزرتے سال کے ساتھ استصواب رائے کا امکان کم ہو رہا ہے۔ یہ دوطرفہ تنازعہ ہے اس کے لئے شملہ ایگریمنٹ یا اعلان لاہور 1999ء سمیت دوسرے قانونی انسٹرومینٹ کو بھی دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ روس پاکستان کے ساتھ کسی حل طلب مسئلہ کے بارے میں بھارت کا ذہن نہیں بدل سکتا، جب تک انڈیا خود نہ چاہے، ہم اپنے طور پر بھارت کو قائل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے، ہم یہی کر رہے ہیں، تاہم بھارت جو کرنا نہیں چاہتا اس کے لئے اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال بہت ہی پیچیدہ ہے، وہاں بھوک موجود ہے، ہم پاکستان اور دوسری بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر مدد کے لئے کوشاں ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی کہ امریکہ کو قائل کیا جائے کہ وہ ان کے فنڈز جاری کرے، مختلف فورمز پر ان کی آواز کو اٹھا رہے ہیں، ہم نے امدادی سامان بھی بھیجا ہے، مگر ہم اس بار افغانستان پر قبضہ کرنے والا ملک نہیں ہیں، یہ امریکہ ہے جس نے 20 سال سے افغانستان پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس لئے امریکہ کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں، ہم صرف سہولت دے سکتے ہیں، ہمارے اپنے بھی مسائل ہیں، ہمیں سخت معاشی پابندیوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے سرحدوں پر حفاطت کو بڑھایا ہے۔ سنٹرل ایشیا میں بھی روابط کو بڑھا رہے ہیں۔ تاجکستان کی بھی مدد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سے ایک دو طرفہ معاہدہ ہے، اسی طرح ازبکستان اور روس کے درمیان بھی اسی طرح کا دو طرفہ معاہدہ ہے، ایسے معاہدے وسیع معنوں میں ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں سٹیل ملز کی طرح کے منصوبوں میں حصہ لے سکتے ہیں، مگر یہ بزنس ہونا چاہئے۔ روس کے سفیر نے کہا کہ پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے کا مستقبل پاکستان کے ہاتھ میں ہے کیونکہ اس کا فیصلہ حکومت پاکستان نے کیا اور ہمارے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس بارے میں پاکستان کے وزیر توانائی سے پوچھا جائے، پاکستانی وزارتیں غیر متحریک ہیں، ہم اس بارے میں خط لکھتے ہیں تو کئی ماہ تک جواب نہیں آتا، جب میں یہاں آیا تو میں نے دوبارہ بات چیت شروع کی لیکن کئی ماہ تک جواب نہیں آیا، جس پر میں سمجھ گیا کہ یہ معاملہ سیاسی ہے۔ پاکستان نے روس کے ساتھ توانائی کے معاملے میں آگے جانا ہے یا نہیں۔ اس لئے زیادہ بہتر ہے کہ ایسے سوالات پاکستانی حکومت سے پوچھے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ روسی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں اگر فائدہ مند مواقع موجود ہوں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کی 1989ء کی حکومت نے روس کے ساتھ چھوٹی گاڑیاں بنانے کا معاہدہ کیا تھا لیکن پھر اس منصوبے پر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ یوکرائن کے متعلق سوال پر روسی سفیر نے کہا کہ ہماری سرحد پر ملٹری ہارڈویئر نہ ہو، ہم نے اپنا ایک معاہدہ ڈرافٹ کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا ہے جس میں ہم نے کہا ہے کہ یوکرائن نیٹو کا ممبر نہ ہو، یہ ایک ڈیمانڈ ہے۔ روسی صدر پیوٹن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم فوجی اور تکنیکی ضروری وسائل کے ذرریعے اپنا ردعمل دیں گے۔ آج وارسا ٹریٹی موجود نہیں ہے مگر انہوں نے نیٹو کا ملٹری الائنس کیوں جاری رکھا ہوا ہے، اگر یہ دفاعی معاہدہ ہے تو روس کو سکیورٹی کی گارنٹی کیوں نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن کی انتظامیہ کمزور ہے اور وہ مڈٹرم الیکشن میں کانگرس میں ناکام ہوں گے۔