’’دیوار احساس پروگرام‘‘
اختر شاہ عارف (جہلم )
حکومت پنجاب کی ہدایت پر جہلم میں محکمہ سوشل ویلفیئر اور دیگر فلاحی تنظیموں کیساتھ ساتھ مخیر حضرات کے تعاون سے سپورٹس کمپلیکس جہلم نزد کچہری میں ’’دیوار احساس پروگرام‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام کا افتتاح ڈپٹی کمشنر نعمان حفیظ نے کیا۔ اس پروگرام میں ضلع جہلم کی سب سے زیادہ فعال تنظیم المرکز کونسل جہلم اور اس کی ذیلی فلاحی تنظیموں‘ اور عورت فائونڈیشن جہلم نے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن جہلم اور محکمہ سوشل ویلفئربیت المال کے تعاون سے ’’دیوار احساس پروگرام‘‘ کو جہلم میں کامیاب بنانے میں اپنا بھرپور اور اہم کردار ادا کیا۔
پنجاب گورنمنٹ کے اس پروگرام کے تحت مستحق اور غریب لوگوں کیلئے موسم سرماکی مناسبت سے گرم مردانہ‘ زنانہ اور بچگانہ کپڑوں کے علاوہ رضائیاں‘ گدے‘ کمبل‘ سوئٹرز‘ جیکٹس‘ کوٹ سوٹ‘‘ کوٹ پتلونیں‘ گرم شلوار سوٹ‘ جرابیں‘ گرم ٹوپیاں‘ شالیں‘ جوتے‘ برتن اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء مستحق اور غریب لوگوں میں فری تقسیم کی گئیں۔ عام شہروں کے برعکس جہلم میں یہ ’’دیوار احساس پروگرام‘‘ پورے ایک ہفتے سے زائد دن جاری رہا ۔اس دوران عطیات کی بلا روک ٹوک فراہمی اور امدادی کام میں کمیونٹی ڈویلپمنٹ کونسل رجسٹرڈ‘ میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن رجسٹرڈ اور ڈیف ویلفیئر سوسائٹی رجسٹرڈ کے علاوہ دیگر فلاحی تنظیموں جن میں ٹیم مہربانی شاپ خیر الناس‘ پرائیویٹ ہیلتھ کیئر ایسوسی ایشن‘ آئی کیوویلفیئر ٹرسٹ‘ ایم ایم بی ٹی دھنیالہ ملک اسماعیل ویلفیئر ٹرسٹ‘ حقوق انسانی تنظیم ضلع جہلم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
شدیدسردی،دھنداوربارشوںکے باوجود محکمہ سوشل ویلفیئر کے ڈپٹی ڈائریکٹر چودھری واجد حسین‘ سوشل ویلفیئر آفیسر سہیل ناصر اور ضلع جہلم کی سینئر ترین سوشل ورکر خواتین ڈاکٹر شہزانہ امتیاز‘ رشیدہ شاہدہ شاہ اور خاتون سید کے علاوہ کرنل (ر) محمدعبید مرزا‘ ڈاکٹر شاہد تنویر‘ ڈاکٹرشہنازشاہد‘ ڈاکٹر محمد اسد مرزا‘ عبدالغفور چوہان‘ فرحت کمال ضیاء ایڈووکیٹ اور سید ذوالفقار حسین شاہ صبح نو بجے سے لیکر شام پانچ‘ ساڑھے پانج تک ذمہ داری سے ڈیوٹی دیتے رہے ۔پنجاب گورنمنٹ کے اس فلاحی پروگرام کا بنیادی مقصد فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات تک مالی وسائل نہ رکھنے والے غریب لوگوں کی باآسانی رسائی کیلئے تعاون فراہم کرنا ہے۔بلاشبہ یہ حکومت کا انتہائی قابل تحسین اقدام ہے۔ ہمارے ملک کی تقریباً پچاس فیصد آبادی خط غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ باوجود حکومتی اقدامات کے اس مہنگائی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے مہنگائی کا جن ہے کہ قابو میں نہیں آرہا۔ ایسے وقت میں حکومت پنجاب کا ’’دیوار حساس پروگرام‘‘ انتہائی قابل ستائش پروگرام ہے۔
مگر اس پروگرام میں ایک قابل افسوس صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب ضرورت مند اور مستحقین لوگوں کی آڑ میں ایسے ایسے پیشہ ور قسم کے لوگ آگئے جو ہر گھنٹے‘ دو گھنٹے کے بعد آ تے اور گرم کپڑے‘ کمبل اور رضائیاں لے جاتے رہے ۔یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک ہی خاندان کے لوگ آئے اور بھیڑ سے فائدہ اٹھا کر دو تین کمبل‘ رضائیاں اور کوٹ وغیرہ لے جاتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ ان کی اس حرکت سے بہت سے مستحق لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے جو واقعی اپنی سفید پوشی اور خودداری کی وجہ سے دست طلب دراز نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے علاوہ دوسرے کئی ممالک میں اسی طرح کے فلاحی پروگرام ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کے نام اس فلاحی پروگرام سے ملتے جلتے یا مختلف ہو سکتے ہیں‘ مگر ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت‘ پاکستان میں دیوار احساس پروگرام کا خیال شاید انہی ممالک سے لیا گیا ہے ۔جہاں صاحب ثروت افراد ایک مخصوص جگہ پر اپنی ضرورت سے زائد چیز رکھ جاتے ہیں۔ اس میں کھانے پینے کی اشیاء سے لیکر ہر ضرورت کی اشیاء شامل ہوتی ہیں۔ وہاں ضرورت مند لوگ اپنی ضرورت کے مطابق چیز لیکر چلے جاتے ہیں۔ اور اپنی ضرورت سے زائد چیز وہیں چھوڑ جاتے ہیں تاکہ باقی مستحقین بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ مگر یہاں لوگ ہوس اور لالچ میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ اپنی ضرورت کے مطابق تو کیا ضرورت نہ بھی ہو تو ’’لوٹ کا مال‘‘ سمجھ کر اٹھا لے جاتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں مستحق لوگوں کی کوئی نگرانی نہیں کرتا ۔یہاں ان فلاحی اور فی سبیل اللہ کاموں میں بھی درجنوں پہرے دار اور نگران کھڑے کرنے پڑتے ہیں ۔
ضلع جہلم کی سب سے پرانی اور نمائندہ فلاحی تنظیم المرکز کونسل رجسٹرڈ اور اس کی ذیلی تنظیموں سی ڈی سی رجسٹرڈ‘ ایم سی ڈبلیو اے رجسٹرڈ اور ڈی ڈبلیو ایس رجسٹرڈ المرکز جہلم کے علاوہ بھی ڈسٹرکٹ جہلم کی کئی تنظیمیں رمضان المبارک میں بھی مستحق اور غریب لوگوں میں فری راشن کی تقسیم کا اہتمام کرنے کیساتھ ساتھ غریب اور بیوائوں میں سلائی مشینیں تقسیم کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ باوجود انتہائی احتیاط کے یہ پیشہ ور لوگ ہر تنظیم میں اپنے اپنے نام رجسٹرڈ کروا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جہاں ایسی ذہنیت اور منفی سوچیں رکھنے والے لوگ موجود ہوں‘ وہاں فلاحی تنظیموں اور حکومت کا کوئی بھی فلاحی کام مکمل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ فلاحی تنظیموں کے فنڈز اور عطیات محدود ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے فلاحی کام بھی محدود ہوتے ہیں اور وہ حد سے زیادہ احتیاط بھی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود شاطر اور پیشہ ور قسم کے لوگ دائو لگا جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے‘ تاہم پھر بھی وہ کامیاب ہو جاتے ہیں مگر حکومت کے پاس فنڈز کثیر تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس لئے انتظامیہ بھی کوئی خاص احتیاط نہیں کر پاتی اور ان کے فلاحی پروگرامز کے ثمر مستحق اور سفید پوش لوگوںتک نہیں پہنچ پاتے۔ چنانچہ ہم سب کو انفرادی طورپر اپنی اپنی سوچوں‘ اپنے اپنے رجحانات کو بدلنا ہوگا تاکہ حکومت اور فلاحی تنظیموں کے فلاحی کاموں کے ثمرات اصل مستحق اور سفید پوش لوگو تک پہنچ سکیں۔