پیکار آرڈیننس لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹس میں چیلنج ،وکلا تنظیموں نے مسترد کر دیا
لاہور+ اسلام آباد (اپنے نامہ نگار سے+ خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) پیکا ترمیمی صدارتی آرڈیننس 2022ء لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ لاہور میں وکیل رانا ایوب خاور نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہے۔ آرڈیننس نافذ کرکے عدلیہ کی آزادی کو محدود نہیں کیا جاسکتا، ترمیمی آرڈیننس عدالتی نظام پر دباؤ بڑھانے کے لیے نافذ کیا گیا ہے، پاکستان کی عدلیہ آئین کے علاہ کسی کو جوابدہ نہیں جبکہ آرڈیننس کے ذریعے ججوں کو کارکردگی رپورٹ نہ صرف ہائیکورٹ بلکہ سیکرٹری لاء کو بھی پیش کرنے کا پابند بنایا گیا ہے، ٹی وی چینلز کی نگرانی کے لیے پیمرا ایکٹ پہلے سے موجود ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈووکیٹ عادل عزیز قاضی کے ذریعے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت نے پیکا قوانین میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی جب 17 فروری تک ایوان بالا کا اجلاس جاری تھا، حکومت نے ڈرافٹ پہلے ہی تیار کرلیا تھا، قانون سازی سے بچنے کیلئے سیشن ختم ہونے کا انتظار کیا، قومی اسمبلی کا اجلاس 18 فروری کو طے تھا جسے آخری لمحات میں موخر کیا گیا، پیکا قانون میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کرنے کے لیے کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی، قانون سازی کے لیے رائج طریقہ کار سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا، حکومت کی جانب سے جلد بازی حکومت کے مذموم مقاصد ظاہر کرتی ہے، ملک میں آزادی اظہار کا قتل ملک میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب وکلاء تنظیموں نے بھی پیکا آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار‘ ٹیکس بار نے بھی آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے اعلامیہ کے مطابق پیکا آرڈیننس اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ترمیم کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ آرڈیننس آزادی اظہار پر یقین رکھنے والوں کی آواز دبانے کا ایجنڈا ہے۔ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھاپنے کیلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ بار اعلامیہ کے مطابق کالے قانون نافذ کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے شیشے کے گھر میں رہ کر پتھر نہیں مارے جاتے۔ موجودہ دور جیسی پابندیاں آمرانہ دور میں بھی نہیں لگائی گئیں۔ فیک نیوز کا مسئلہ غور طلب ہے مگر خلاف آئین اور بنیادی حقوق کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ دوسری طرف پریونیشن الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016ء میں ترمیم پر سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے مذمتی قرارداد منظور کر لی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پیکا میں ترمیم کا آرڈیننس رات کے اندھیرے میں جاری کیا گیا۔ صدر اور وزیر قانون نے آرڈیننس کے ذریعے پارلیمنٹ کو بائی پاس کیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ پیکا میں ترمیم فیک نیوز کے نام پر صحتمند تنقید کو دبانے کے مترادف ہے۔ ایسے قانون کا مقصد نام نہاد مقدس گائے جیسے حکمران کو تنقید سے مبرا بنانا ہے۔ پی ایف یو جے نے بھی آرڈیننس کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر کر دی ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ آج سماعت کریں گے۔سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے پیکا آرڈیننس کے اجراء پر تنقیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس آئین کی شقوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ آرڈیننس سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے جاری کیا گیا۔ پنجاب بار کونسل نے پیکا ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اقدامات پر تنقید کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنے معاملات کو بہتر بنائے، حکومت نے ترمیمی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے آمرانہ رویہ اختیار کیا۔ حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے اٹھنے والی تنقیدی آوازوں کو جبری طور پر خاموش کرانا چاہتی ہے۔