• news

انصاف صحت کارڈ: حقیقت یا فسانہ

وفاق کی جانب سے ’’انصاف صحت کارڈ‘‘ کا اعلان کیا گیا کہ پاکستان کے ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس دی جائے گی۔اس پر لوگوں نے مسرت اور انتہائی اطمینان و خوشی کا اظہار کیا۔ کسی کو صحت کی انشورنس مل جائے تو اْسے اور کیا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے لوگوں کی فلاح کیلئے بہت سے پروگرام جاری کیے ہیں۔ احساس پروگرام، کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام، کامیاب نوجوان پروگرام۔ گھر وں کی تعمیر کے لیے معمولی شرح سود پر قرضوں کا پروگرام۔ جن میں سے ایک ’’انصاف صحت پروگرام‘‘ بھی شامل ہے۔ ’’انصاف صحت کارڈ‘‘ کے حوالے سے کہا گیا کہ ہر پاکستانی خاندان صرف سرکاری ہی نہیں، پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی اپنا مفت علاج کرا سکے گا۔ اْس سے کسی قسم کے کوئی چارجز وصول نہیں کیے جائینگے۔ کینسر تک کا مہنگا علاج بھی سرکاری خرچ پر ہو گا ، ہارٹ آپریشن بھی کوئی وصولی کیے بغیر کیے جائینگے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کی ایک لمبی فہرست بھی جاری کر دی گئی۔ جہاں ’’انصاف صحت کارڈ‘‘ پر مفت علاج ممکن ہے۔ اس خوش آئند اعلان یا خبر پر اہلیان پاکستان کی جانب سے والہانہ خوشی کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان میں ہر طرح کے مسائل ہیں۔ لوگوں کو تھانوں اور عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا۔ بے روزگاری بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے جسکے باعث غربت ہے۔اکثریت کے پاس اپنا گھر نہیں۔ وہ انتہائی کسمپرسی اور اضطراب کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ذرائع آمدن محدود ہونے کے باعث اکثریتی طبقے کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اْنکے مصائب اْس وقت اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب انہیں صحت جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ایک محتاط اندازے کیمطابق ہر گھر میں ایک بیمار شخص ضرور موجود ہے۔ بلڈ پریشر، شوگر اور ہپا ٹائٹس عام بیماریاں ہیں اور ان بیماریوں نے ہر گھر کو ہی متاثر کیا ہوا ہے۔ دل کے امراض اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں میں بھی اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ انکے شکار لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ہر شہر کے ہسپتال ان سے بھرے نظر آتے ہیں۔ علاج اس قدر مہنگا اور بساط سے باہر ہے کہ غریب افراد علاج سے زیادہ مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ماضی میںایک ایسے شخص کو دیکھا جو ایک موقر اخبار میں سب ایڈیٹر تھا۔ منہ کے کینسر میں مبتلا ہوا۔ کینسر کے باعث اْس سے بولا بھی نہیں جاتا تھا۔ علاج اس قدر مہنگا تھا کہ وہ محددد آمدن کے باعث اپنا ٹریٹمنٹ نہیں کرا سکا، کسی نے مشورہ دیا ’’اپنا علاج کیوں نہیں کرواتے۔ شوکت خانم جائو۔‘‘ وہ شخص بولا ’’علاج کرائوں گا تو بچوں کو روٹی کہاں سے کھلائوں گا۔ ‘‘
میں گواہ ہوں ، ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ سب ایڈیٹر محدود آمدن کے باعث اپنا علاج نہیں کرا سکا۔ اْس کی بیماری بڑھتی چلی گئی۔ بالآخر چالیس سال کی عمر میں ہی اْس کا بلاوا آ گیا اور وہ راہیِ ملک عدم ہو گیا۔اب ہم آتے ہیں انصاف صحت کارڈ کی جانب،  حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ وائرل ویڈید میں ہمکلام شخص لاہور کے ایک معروف نجی ہسپتال کی لابی میں کھڑا ہے۔ اْسکے ہاتھ میں انصاف صحت کارڈہے۔ وہ قریباً رو رہا ہے اْس کا مدعا ہے کہ اْس کا بیٹا ہرنیا کے مرض میں مبتلا ہے۔ اْس سے بیٹھا نہیں جاتا۔ بچہ سخت تکلیف میں ہے۔ انصاف صحت کارڈ لے کر آج جب وہ علاج کیلئے نجی ہسپتال آیا تو ڈاکٹر نے فوری علاج سے انکار کر دیا۔ آپریشن کیلئے دو ماہ کے بعد کا وقت دے رہا ہے۔ آپ بتائیں میں کہاں جائوں۔ بیٹا ہرنیا کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہے۔ جب علاج نہیں ہونا تو ایسے صحت کارڈ کا کیا فائدہ۔ اس شخص نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے فوری نوٹس لینے کی بھی اپیل کی۔ جب وہ یہ اپیل کر رہا تھا نجی ہسپتال کے سیکورٹی عملے نے اْسے گھیر لیا۔ چیخ و پکار کرنے اور ویڈیو بنانے سے منع کرتے رہے۔ جب یہ شخص باز نہ آیا تو دو سیکورٹی گارڈز اس پر ٹوٹ پڑے اور تشدد کرنے لگے۔ ویڈیو بنانے والے کو بھی وہاں سے ہٹا دیا گیا لیکن ’’واقعہ‘‘ کی جتنی بھی ویڈیو بنی، سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔انصاف صحت کارڈ کے حوالے سے جب میں نے پی ٹی آئی لاہور کے ایک مقامی آفس سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ رجسٹریشن کے بعد صحت کارڈ کی دستیابی ایک سے دو ماہ میں ممکن ہو جاتی ہے۔ مزید معلومات پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ انصاف صحت کارڈ آئوٹ ڈور کیلئے کارآمد نہیں۔ اس سہولت سے صرف ایسے مریض فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو کسی سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کی غرض سے داخل ہوں۔ صحت کارڈ حاصل کرنیوالے لوگ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ جیسے ہی وہ کسی سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال میں جائیں گے اْن کا مفت علاج شروع ہو جائیگا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آئوٹ ڈور میں جانیوالے مریضوں کو صحت کارڈ سے مفت علاج کی سہولت حاصل نہیں۔ پھر آپ خود سوچیے کیا فائدہ ایسے صحت کارڈ کا۔ پاکستان میں ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگ اپنے علاج کیلئے سرکاری ہسپتالوں کی آئوٹ ڈور کا رْخ کرتے ہیں۔ نجی ہسپتالوں میں بھی لوگ اپنے معمول کے چیک اپ کیلئے جاتے ہیں۔ جہاں انہیں مہنگی ادویات لکھ دی جاتی ہیں۔کوئی بھی شخض انتہائی خراب یا تشویش ناک حالت میں ہی کسی ہسپتال میں داخل ہوتا ہے لیکن اْنکی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ ایسے میں سوچنے کی بات ہے کہ اْس صحت کارڈ یا اْس حکومتی اعلان کا کیا فائدہ جو آئوٹ ڈور مریضوں کو علاج کی سہولت مہیانہ کر سکے جو اکثریت میں موجود ہیں اور پائے جاتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن