حقیقی ترقی
جب تک جنگ اور تشدد موجود ہیں جب تک انسان جنگ وجدل اور تخریب کو مسائل کا حل سمجھتاہے جب تک تعلیم،تاریخ اور مذہب کا کام تعمیری کی بجائے تخریبی جذبات کی آبیاری کرتاہے جب تک سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے نت نئے تباہ کن ہتھیار تیارکئے جارہے ہیں۔ جب تک ریاستوں کی بنیادی سرگرمی جنگ کی تیاری ہے جب نوجوانوں کی تربیت کا بنیادی مقصد انہیں صدیوں پرانی دشمنیاںمنتقل کرنا اور پھرفساد کا ایندھن بناناہے اس وقت تک تہذیب اور ترقی محض سراب کے معاشقے کے سوا کچھ نہیں۔
جب تک انسان تخریبی جذبات کا غلام ہے اس وقت تک ہرنئی ایجاد اسکی قوت تخریب میں اضافہ کرتی رہے گی۔ مثال کے طور پر تخریب پر مائل ایک نوجوان کے ہاتھ میں جب سمارٹ فون یا انٹرنیٹ سے لیس کمپیوٹرآتاہے تو اس نوجوان کی تخریبی صلاحیتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، چونکہ مشین جذبات اور اقدار سے آزاد ہے اس لیے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اس سے کیا کام لیاجارہاہے اس لیے مشین سازی سے بھی کئی گنا اہم کام افراد کی توانائیوں کے اظہار کے تعمیری وتخلیقی راستے فراہم کرناہے۔یوہان گلٹنگ سے پہلے علم نفسیات نے ہمیںبتایا تھاکہ انسان جبلت مرگ اور جبلت حیات کا غیرمتوازن ملغوبہ ہے وہ تعمیروتخریب کی متزلزل کیفیت کا نام ہے۔ تخریبی جبلتوں کا رخ متعین کرنے کا کام تو کچھ اداروں نے سنبھال رکھاہے جبکہ اس کی تعمیری وتخلیقی جذبات کو ابھی ادارتی سرپرستی حاصل نہیں ہوئی۔ اب بھی کچھ اداروں کو محض انسان کے تخریبی پہلوئوںمیں دلچسپی ہے اور وہ تعمیری پہلوئوں کی قیمت پر تخریبی جذبات کی آبیاری اور نمود میں دن رات مصروف عمل ہیں۔ ان اداروں کا کام تشددکی تبدیلی ٹرانسفارمیشن اور اسے تعمیری نکاسoutletsفراہم کرنا نہیں بلکہ انسان میں تشددکا رجحان بڑھاکر اسے اپنے مفاد کیلئے استعمال کرناہے۔ہم انسانوں کے اظہارکے تعمیری راستے فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مشینوں سے لیس انسان آج بھی تہذیب وتقدیس کے نقاب میں وہی کھیل کھیل رہاہے جو وہ غار،جنگل اورجہالت کے دور میں کھیلاکرتاتھا۔ انسان کو جدید ریاست کا شہری بنے کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس لیے وہ لاکھوں برس کی ان یاداشتوں اور عادات سے پوری طرح پیچھا نہیں چھڑا پایا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ یاداشتیں اسکی اس تکمیل کے طور پر استعمال ہورہی ہیں جومفاد پرستوں کے ہاتھ میںہے۔ہوسکتاہے کہ بعض لوگوں کو اس سے قنوطیت اورمایوسی کی بو آئے اس لیے کچھ روشن پہلوئوں پرنگاہ ڈال لیتے ہیں۔کتابِ رواداری میں جمشید اقبال نے انسانی تاریخ رواداری،سماجی تعلقات کو بڑی گہری نگاہ سے دیکھاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگرہم انسانی تاریخ کوOptimistآنکھ سے دیکھیں توہم فراعینی مطلق العنانیت سے تہذیب کا تیز و تند لہورنگ سفرکرتے کرتے جمہوریت اور حقوق کی منازل تک آن پہنچتے ہیں۔ ہم قتل پر آمادہ غلاموںکی خونی تفریح سے کرکٹ اورفٹ بال جیسے مہذب کھیلوں کے ذریعے فاسدجذبات کے نکاس کی راہیں دریافت کرچکے ہیں۔ کل تک بھائی تخت پر قابض ہونے کیلئے بھائی کے گلے پر خنجر چلاتا تھا اور آج حریف بھی انتخابات میں ہارجیت کا فیصلہ خندہ پیشانی سے قبول کرتاہے۔ اقوام کے وہ فاسد جذبات جن کے نکاس کا کام کل تک جنگ سے لیاجاتا تھا آج وہ روایتی حریفوںکے مابین کرکٹ میچ یا عام انتخابات سے لیاجاسکتاہے۔ عام انتخابات، سپورٹس اورجمہوری ادارے معاندانہ جذبات کو مثبت نکاس فراہم کرکے بیہودہ جنگوںکومہذب مقابلوں میں بدل رہے ہیں۔پاکستان کے بارے میں بات کی جائے تو اس دور کا سب سے ہم سوال بھی یہی ہے کہ ہم اپنے جوانوں کی توانائیوں کو اظہارکے تعمیری اور تخلیقی ذرائع کیسے فراہم کرسکتے ہیں۔اس کا مختصر جواب شکاری یاداشتوں اور گروہی فکر سے جان چھڑانے میںمدد اور بالواسطہ تشدد پرامن تحریکوںکی مدد سے بتدریج خاتمہ ہے۔ صرف اسی طرح ایسی نسلیں پروان چڑھائی جاسکتی ہیں جن کی نظریں ان مقام پر ہو جہاں سے ٹکڑوںمیں بنی انسانیت کو ایک کنبے کی شکل دی جاسکتی ہو۔ جہاںسے آگے بڑھاجاسکتاہو۔پاکستان میں رواداری تحریک انہی مقامات کی نشاندہی کررہی ہے وہ اس بات کا عملی مظاہرہ کررہی ہے کہ ہم اختلافات کو سمجھتے ہوئے مشترکات کا دامن تھام کرکیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟یہ تحریک ایک روادار معاشرے کے قیام کا خواب لے کر نکلی ہے۔راقمہ کے نظریے کیمطابق کتاب رواداری، حقیقی تہذیب وترقی کی منزل کے حصول کیلئے ایک راہنماکتابچہ ہے اس کا مقصد یہ احساس اجاگرکرتاہے کہ کسی کو شکست دیئے اور دشمن بنائے بغیر بھی جیتا جاسکتاہے۔اس سب کے علاوہ اس کتاب کا مقصد پرامن تحریکوں سے وابستہ اور انفرادی طور پر تعمیرامن کیلئے کام کرنے والوں کو تنازعات کے دوران لوگوں سے نرمی اور مسائل سے سختی کا بنیادی اصول سکھانا ہے۔ انہیں یہ بتانا ہے کہ ہر دور نئے مسائل لے کر آتاہے اور انکے حل کیلئے نئے تخلیقی مگر غیرتشدد طریقے اختیارکرنے سے زمین پرامن قائم رکھا جا سکتا ہے ۔
اس کتاب کا بنیادی پیغام یہ بھی ہے کہ تشدد اور جنگ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم انسانوں کی طرح مسائل حل نہیں کرسکتے لہٰذا ہم درندوں کی طرح لڑیںگے۔ اس لیے حقیقی ترقی مشینوں کی ریل پیل نہیں بلکہ باطنی اور خارجی تشدد سے آزادی ہے۔ چونکہ حقیقی ترقی آزادیوں کا احترام اور تشدد کی آگ کو ہوا دینے والے تصورات کا تدارک ہے اس لئے ترقی صرف ٹائپ رائٹر کا کمپیوٹر میں بدل جانا نہیں بلکہ حقیقی ترقی وہ ماحول ہے جس میں آدمی کو انسان بننے کی آزادی میسر ہو۔