بول کہ لب آزاد ہیں تیرے!!!!
ان دنوں پیکا آرڈیننس پر بہت بات ہو رہی ہے۔ میں ہمیشہ سے آزادی اظہار کا قائل ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو بولنے کی مکمل آزادی ہونے چاہیے، تبادلہ خیال ہونا چاہیے، لوگوں کو سنا جانا چاہیے، ان کے مسائل حل کیے جانے چاہئیں، قوانین بنانے یا سختی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے، لوگوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرنے پر کام کیا جائے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے ہاں ہر دور میں یہ فلسفہ ناکام ہی رہا ہے کیونکہ یہاں جو بھی حکمران بنتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ صرف وہی درست ہے باقی سب غلط ہیں، صرف وہی سمجھدار ہے باقی سب بیوقوف ہیں، صرف وہی کام جانتا ہے باقی سب نکمے ہیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ پھر تاریخ ایسے کرداروں کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھتی۔ جب ہم آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ بھی ضرور کرنا چاہیے۔ جو لوگ باتیں کرتے ہیں، خبریں دیتے اور تجزیے کرتے ہیں انہیں نہایت ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ قوم کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں انہیں غیر ضروری طور پر کہیں جھکاؤ نہیں رکھنا چاہیے ان کا جھکاؤ صرف اور صرف ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے ساتھ جڑا ہونا چاہیے۔ بدقسمتی یہاں بھی مثالی حالات نہیں رہے۔ بالخصوص ان دنوں اخلاقی اقدار کو بھلا دیا گیا ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ فلاں بھی کرتا تو آج ان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ کہیں سے تو تبدیلی ہونی چاہیے، کہیں سے تو آغاز ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے قانون سازی سے زیادہ بہتر اعتماد سازی کا راستہ ہے۔ آپ اپنے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں بات چیت کریں اور انہیں قائل کریں، ناقدین کو بھی یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انہوں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں اس لیے انہیں بھی ازحد محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ جہاں تک قوانین کا تعلق ہے ان کا حال سڑکوں پر روزانہ نظر آتا ہے۔ بہرحال آج اپنے عظیم شعراء کے خیالات آپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے اس ملک کے بہترین دماغ کیا سوچتے تھے۔
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا سْتواں جسم ہے تیرا
بول کے جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کے آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وجاں کی موت سے پہلے
بول کے سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
(فیض احمد فیض)
مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے
(احمد فراز)
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی
پڑھ کے ناخوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالب
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا
(حبیب جالب)
پیکا آرڈینینس پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے اس قانون کو ڈریکونین قانون قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ "کسی کو ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اختلاف رائے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے"۔
بہرحال حکومت، اپوزیشن اور میڈیا کو اتفاق رائے سے ایسے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو آزادی بھی دینی ہے اور آزادی کی قدر و قیمت بارے بھی بتانا ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو متحد ہو کر آگے بڑھنا چاہیے یہ کسی ایک کے فائدے یا نقصان کی بات نہیں بلکہ یہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی ضرورت ہے۔ آوازوں کو قید نہیں کرنا چاہیے لیکن آوازوں کو بھی کوئی معیار ضرور مقرر کرنا ہو گا۔