• news

تحریک ِعدم اعتماد کا انجام کیا ہوگا؟


پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک آج تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی۔جنرل ایوب خاں کے دور میں کبھی ان کے خلاف ایسی تحریک پیش نہیں کی گئی ۔نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی دور میں، حالانکہ آئین میں اس کی گنجائش موجود تھی۔پھرضیاء الحق کی تاریک رات کا آغاز ہوا،فوجی دور تھا بلکہ اس بھی زیادہ ظالمانہ ۔ضیاء الحق اور اس کا دور، ایک ہی روز تمام ہوگیا۔جونیجو حکومت توڑ دی گئی مگر تحریک عدم اعتمادنام کی کوئی چیز پارلیمنٹ کے دروازے تک نہ پہنچی ۔بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو انکے پہلے دور کے دوران ہی چند ماہ بعد ملک بھر کی کئی ایک چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد " اسلامی جمہوری اتحاد"نے اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی ۔یہ تحریک بڑی مضبوط بنیادوں اورعدوی اعتبار سے ایک مکمل تحریک تھی ۔بے نظیر بھٹو کی حکومت ڈانواں ڈول ہوگئی۔ افسرشاہی نے بھی انکے احکامات کواہمیت دینا چھوڑ دی۔حکومت انتہائی کمزور ہوگئی کیونکہ اپوزیشن بہت مضبوط تھی اور ایسٹیبلشمنٹ بھی اسکے ساتھ تھی ۔ اجلاس سے چند ایام قبل جب ممبران اسمبلی پارلیمنٹ میں جمع ہونا شروع ہوئے تو جام صادق عاجزی وانکساری کا نمونہ بن کرممبران اسمبلی کے پائوں پکڑتے رہے کہ وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد نہ کریں ۔پیپلز پارٹی کے اور راہنما بھی اپنے اور بیگانے اسمبلی ممبران کے دروازوں پر بے نظیر بھٹو کی حمائت کیلئے ایک طرح سے بھیک مانگتے رہے کہ وہ بے نظیر حکومت کوکام کرنے دیں اور عدم اعتماد سے باز آجائیں۔ تحریک کالب لباب یہ تھا کہ بے نظیر ایک کرپٹ حکمران ہیں۔اورایوان کوان پر بطور وزیر اعظم اعتماد نہیں رہا۔مزید یہ کہ بے نظیر بھٹو کااب اقتدار میں رہنا پاکستان کیلئے تباہ کن ہوگا ۔اور یہ کہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔اسکے ساتھ ہی آئی جے آئی نے غلام مصطفے جتوئی کونئے وزیر اعظم کیلئے ایوان میں پیش کردیا۔ان دنوںاسلام آباد میں بڑی رونق رہی ۔تمام ہوٹل بک ہوگئے۔ سیاستدانوں کی کوٹھیاں اوربنگلے مہمانوں سے بھرگئے ملکی وغیر ملکی میڈیا بھی بڑاسرگرم نظرآیا۔ایسا سماں بندھا کہ بے نظیر کافارغ ہونا یقینی بن گیا چند ہی ووٹوں سے یہ تحریک کامیاب ہوتی نظر آرہی تھی کہ ایک روز کہیں اسلام آبادکے بلیو ایریا کے قریب نواز شریف کے کسی انتہائی قریبی ساتھی سے سرراہ چلتے چلتے فیصل آباد مسلم لیگ کے ایک بڑے راہنما میاں زاہد سرفراز کی ملاقات ہوگئی۔میاں صاحب نہائت زیرک سیاست دان تھے۔ انہوں نے نواز شریف کے ساتھی سے کہاکہ اس "گھگھو"کوسمجھائو کہ اگر بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو اگلا وزیر اعظم تو غلام مصطفے جتوئی ہوگا جومزید تین سال تک وزیر اعظم رہے گا۔ان تین سالوں تک یہ "گھگھو"(نواز شریف) کیاکریگا کیونکہ اگر جتوئی مزید تین سال وزیر اعظم رہا تو نوازشریف سیاست سے خودکو فارغ ہی سمجھے۔یہ بات نواز شریف اینڈ کمپنی کی سمجھ میں آگئی اور عین اس روز جب بے نظیر بھٹو کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سیالکوٹ سے پیپلز پارٹی کے ایک رکن خورشید چیمہ کے جو چوہدری برادران کی وجہ سے بے نظیر کے مخالف کیمپ میں چلے گئے تھے، زارو قطار روناشروع کردیااور اپوزیشن کے بینچوں سے روتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی طرف بڑھے اور انکے سامنے اپنا سرجھکا دیا اور ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کاتابع فرمان ہوں کبھی آپکے خلاف عدم اعتماد کا سوچ بھی نہیں سکتا، مجھے گجرات کے چوہدریوں نے رشتہ داری کاکارڈ کھیلتے ہوئے اغواء کئے رکھا مگر میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ انکی سازش کا حصہ بنوں ۔ایک طرف یہ المیہ ڈرامہ چل رہا تھا تو دوسری طرف نواز شریف نے اپنی پارٹی کی بیگم عابدہ حسین کوکہاکہ صرف چار پانچ ووٹوں کافرق ہے تم ایسا کرو کہ خود اور تمہارے ساتھی اسمبلی میں ہی نہ آئیں۔اس طرح جب گنتی کامرحلہ شروع ہوا تو مسلم لیگ کے وہ ممبران اسمبلی جو بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تلوار لہراتے نظر آتے تھے اب اسمبلی سے ہی غائب ہوگئے ۔تحریک عدم اعتماد ناکام ہوکر پٹ گئی۔ غلام مصطفے جتوئی جب وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے تو انہیں سازش کاعلم ہوا مگر وہ ہر حال میں اسی تنخواہ پرکام کرنیوالے سیاسی راہنما تھے ۔جوش وجذبہ سے عاری اور کسی قسم کا احتجاج یا اپنے اور کارکنوں کے حق کیلئے لڑنا ان کی لغت میںہی نہیں تھا اس لئے اپنا سامنہ لے کر نہ جانے سندھ چلے گئے یا اسلام آباد کے فضل حق روڈ پر اپنے کسی جاننے والے کے گھر جاکر پناہ لی ۔بے نظیر نے خداکا اور آئی جے ئی کاشکر اداکیا اور نئے عزم سے کام کرنا شروع ہوگئیں۔پھر ان کی حکومت کو غلام اسحاق خاں نے چلتا کیا مگر فی الوقت ہمارا موضوع صرف تحریک عدم اعتماد ہے حکومتوں کاٹوٹنا یافارغ ہونانہیں لہٰذا اس موضوع کو کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔ اب آتے ہیں موجودہ اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کی کوششوں پر ۔سوال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اپوزیشن میں سے کون ہوگا جو وزیر اعظم بنے گا۔سب سے زیادہ خودکو وزیر اعظم سمجھنے والاایک ہی "دانہ" ہے اور وہ ہے نواز شریف جو شہباز شریف کو بھی اس عہدے پر دیکھنا پسند نہیں کرتا۔رہے زرداری یاان کاکوئی نمائندہ کیا نااہل شدہ نواز شریف کو بطور وزیر اعظم قبول کرلے گا۔یا پھر ن لیگ بلاول بھٹو کو وزیر اعظم دیکھنا گوارہ کرلے گی ؟یقینا نہیں۔ باقی رہے اپنے مولانا صاحب تو وہ وزیر اعظم کیلئے بنے ہی نہیں ہیں۔اگر تحریک کامیاب ہوبھی جاتی ہے تو صرف اگلے ڈیڑھ سال کیلئے کون سا بندہ اپوزیشن سے وزیر اعظم بنے گا۔
 یہی اصل سوال ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں باہمی طورپر عدم اعتماد کا شکا ر ہیں۔اگرایسا ہوا تو موجودہ سارا سیاسی ڈھانچہ اتھل پتھل ہوجائے گا۔کالم کے آغاز پر بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور غلام مصطفے جتوئی کاذکر اس لئے کیاکہ وزیر اعظم کاہر کوئی امیدوارجتوئی کی طرح اپنا ٹھکانہ ڈھونڈلے کہ اس نے لاہور جانا ہے ملتان یا ڈیرہ غازی خاں ۔افسوس ناک :۔گذشتہ دنوں بار کے سینئر رکن عمر دراز چیمہ صاحب ایک طویل مدت تک پیشہ وکالت میں کام کرتے کرتے عدم کو سدھار گئے اورکئی دوستوں کو اداس کرگئے اللہ کریم انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔امین      
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن