وزیراعظم کادورہ ٔروس اور خارجہ پالیسی کے تقاضے
میکیاولی کا نظریہ ہے کہ خارجہ پالیسی کی حکمت عملیوں کا تعین سازگار ماحول‘ پرامن معاہدوں اوروسیع پیمانے پر تعمیری سوچ پر ہوتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ باہمی مفاد کے اصولوں کو مدنظررکھا جائے تو ابدی اور ازلی دوستی کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ خارجہ پالیسی ملکوں کواپنے مفاد کوپیش نظررکھ کر ترتیب دیناہوتی ہے۔وقت کے ساتھ اورقومی مفادات کے وسیع تر دائرہ کارکے لئے ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ احترام‘ سا لمیت اوردوطرفہ اصولوں پرمبنی رہی۔ ہم اقوام عالم سے پرامن بنیادوں پر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اس لحاظ سے وزیراعظم کادورہ روس خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستاں کے کسی بھی وزیر کا یہ 23 سال بعد کا دورہ ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ ماضی مین پاکستان اور روس کے مخاصمانہ رویئے رہے۔ پاکستان اورروس کے درمیان تعلقات کے استوار نہ ہونے کی وجہ ایک طرف تو نظریاتی اختلاف رہا اور دوسرے سے امداد کا عنصر بھی شامل رہا۔ ماضی کے اندیشوں نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے امریکہ سے دور رکھا‘ تاہم ملکی تاریخ میں وزیراعظم کا دورہ روس ایک مثبت قدم ہے۔ اس تناظر میں کئی سوالات خارجہ پالیسی کے افق پر منڈلا رہے ہیںکہ ایک طرف تو سوویت یونین کی پڑوسی ممالک سے جنگ جاری ہے دوسری طرف سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس دورے سے یورپ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پرکیا زد پڑسکتی ہے جبکہ یورپ اورامریکہ سوویت یونین کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ معاشی ماہرین کی رائے کے مطابق یورپ کی معاشی منڈیاں روس کے ساتھ تعلقات کے باعث رکاوٹیں کھڑی کرسکتی ہیں۔ وزیراعظم کادورہ روس کیا نتائج لائے گا‘ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا‘ تاہم برسوں سے جمی برف کو پگھلانے میں یہ دورہ کامیاب ہوسکتا ہے اور سوویت یونین کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ پایہ تکمیل کوپہنچے گا۔ اسلاموفوبیا جیسے مسئلہ کو اٹھایا جاسکتاہے ۔دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے اور سیاسی افق پر ہونے والی تبدیلوں میں یہ دورہ مثبت اثرات لا سکتاہے۔ آج یہ سوال گردش کررہا ہے کہ مغرب اس دورے کوکس نظرسے دیکھے گا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اقوام عام کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا عنصر موجود رہا ہے۔ پاکستان تمام ممالک سے پرامن بنیادوں پر تعلقات کا خواہاں ہے ۔ دورے سے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کوسمجھنے کاموقع ملے گا۔ سرد مہری تنازعات کا حل نہیں ہے پرامن خارجہ پالیسی کے تقاضوں پر بات کرتے ہوئے ایک بار ضیاالحق نے کہا تھا کہ ہمیں قومی مفادات کے لئے خارجہ پالیسی کے دائرہ کار کو وسیع کرنا ہوگاکیونکہ پانی میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں رکھاجاتا۔ دوسری طرف ہماری خارجہ پالیسی کامرکز اور محور ہی سالمیت‘ بقا اور دوطرفہ مفادات ہیں تو یہی اصول خارجہ پالیسی کومتوازن رکھتاہے ۔ اس موقع پر وزیراغطم کو محتاط ہونا پڑے گا کہ یہ تاثرنہ ملے کہ پاکستان کسی کیمپ کا حصہ بننے جارہا ہے یا یہ کہ یوکرین بحران میں کسی کی مدد کررہا ہے۔