میچ سے پہلے
پاکستان میں نہ صرف کرکٹ نے کم بیک کیا ہے بلکہ کھلاڑیوں کی بہترین پرفارمنس کا بھی کم بیک ہوا ہے۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ دْنیا بھر میں پاکستانی کرکٹ کو بدنام کرنے کی مذموم سازشوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ کچھ عرصہ قبل دشمنوں کی انہی سازشوں کے نتیجہ میں ایک غیر ملکی ٹیم نے میدان کرکٹ میں پہنچ کر نہ کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ملک کی طرف واپسی کی راہ لے لی۔ اسکے علاوہ پچھلے کچھ سالوں میں کرکٹرز کی کچھ لگاتار ناکامیوں نے شائقین کرکٹ کو بھی دلبرداشتہ کردیا تھا لیکن اب حالات بہت اچھے چل رہے ہیں۔ پی ایس ایل نے کرکٹ کی بحالی اور شائقین کے دلوں میں دوبارہ سے اپنی محبت کی شمعیں روشن کردی ہیں۔ لاہور قذافی سٹیڈیم لاہور کے میچ پر رونق سڑکوں کے دامن میں میدان سجاتا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی مقابلے اس حسین شاہراہ کے پہلو میں اپنی رونقیں بکھیرتے ہیں۔ اہم ترین مقابلوں کے انعقاد کے دوران پولیس فورس، رینجرزحتیٰ کہ ڈولفنز بھی شہریوںکی حفاظت پر مامور ہے۔ پچھلے کئی میچوں کی سیریز کے دوران سڑکوں کی بندش سے مسافروں کو انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متبادل راستوں پر ٹریفک کی منتقلی سے روڈ بلاک ہونا درد سر بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے لوگ ان دنوں میں ان راستوں پر سفر کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ موجودہ پی ایس ایل کے انتظامات کی داد دینی پڑے گی۔ کرکٹ کے کم بیک نے میری بھی کرکٹ سے دلچسپی کو دوبارہ جگا دیا۔ لہذا لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان ہونیوالے ایک سپر مقابلے کو براہ راست دیکھنے کیلئے میرے شوہر نے ٹکٹس بک کروا دیں۔ میچ دیکھنا تو ایک پرلطف تجربہ ہے سو ہے لیکن سٹیڈیم تک پہنچنے کے انتظامات نے اس خوشی کو دوبالا کردیا۔ ہم لوگ سٹیڈیم جانے کیلئے لبرٹی سے روانہ ہونیوالی شٹل سروس میں بیٹھے۔ خوبصورت صاف ستھری منی بسیںبڑی تعداد میں روانگی کیلئے کھڑی تھیں۔ بس میں سوار ہونے سے قبل کووڈ سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ اور پرس کو اچھے طریقے سے چیک کیا گیا جبکہ چیکنگ کیلئے بیٹھی ٹیم خوش دلی سے لوگوں کومیچ کے حوالے سے رہنمائی کرنے اور معلومات فراہم کرنے کیلئے بھی کام کر رہی تھیں۔ بس میں بیٹھتے ہوئے سیکورٹی اہلکار نے جلدی سے مناسب سیٹوں کا انتخاب کرکے ہم دونوں کو بٹھایا۔ چند لمحوں بعد ہی شٹل سروس جو کہ فری تھی سٹیڈیم کی طرف روانہ ہوگئی۔ سٹیڈیم پہنچنے پرمیدان کرکٹ تک پہنچانے کیلئے کچھ اورشٹل سروس مدد فراہم کرنے کو تیار تھیں۔ یہاں تک پہنچنے کیلئے دوبارہ چیکنگ کے مرحلے سے گزارا گیا۔ پولیس جگہ جگہ مستعد نظر آئی۔کرکٹ گرائونڈ تک جانے کیلئے پھر سے اصلی شناختی کارڈزکو نہایت احتیاط سے چیک کیا گیا بلکہ انکی فوٹو کاپی بھی لی گئی جبکہ خواتین کے پرس اور کھانے پینے کی اشیاء کو مستعدی سے خواتین اہلکار چیک کر رہی تھیں۔ کیونکہ کھانے پینے کی کچھ اشیاء اندر لے کر جانے کی اجازت نہیں ہے لیکن بچوں کی اشیاء پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ چند منٹ اس مرحلہ میں لگ گئے یہ تمام مراحل شاید پڑھنے پر آپ کو مشکل اور بوجھل محسوس ہورہے ہوں لیکن یقین کیجئے ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ سارا سسٹم اتنا فول پروف، اتنا پرفیکٹ اور اتنا آسان رکھا گیا ہے کہ ہزاروں شائقین کو محفوظ طریقوں سے اور کرکٹ کے میدان کو محفوظ بنانے کیلئے پروفیشنل اور پرفیکٹ طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔ کسی کوکوئی شکایت نہیںہوئی کہ کسی پولیس اہلکار یا سیکورٹی والے نے اسکے ساتھ بدتمیزانہ رویہ رکھا ہو۔ یا کسی پریشانی سے دوچار کیا ہو۔ نہایت اخلاق اور تمیز کے ساتھ بات کی جاتی رہی۔ نہایت عزت و احترام کے ساتھ خواتین کو گزرنے کیلئے جگہ دی جاتی۔ اس تمام عمل سے گزرنے کے بعد طبیعت سرشار ہوگئی۔ میچ کا مزہ تو دوبالا ہی ہوگیا۔ آپ اگر میچ دیکھنے لاہور آتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ قذافی سٹیڈیم سے دوردراز سڑکوں پر ہی پولیس تعینات کردی گئی ہے جس کیلئے دوسرے شہروں سے بھی اہلکاروں اور افسران کو طلب کیا گیا ہے۔
چند چند گز کے فاصلے پر کھڑے یہ اہلکار اور میدان کرکٹ تک اپنی ڈیوٹی انجام دیتے مستعد اور چاک و چوبند پولیس فورس کی کارکردگی مثالی تھی۔ پولیس سے متعلق تمام افواہیں، تمام کہانیاں جھوٹی محسوس ہونے لگیں۔ اب جو اپنے انکلیو تک پہنچ کر سیٹس تلاش کرکے بیٹھنے کا مرحلہ آیا تو یہاں مزید کئی کئی لوگ رہنمائی کیلئے کھڑے تھے۔ پورے میچ کے دوران پورے گرائونڈ میں پولیس، رینجرز اور دیگر حفاظتی اداروں کے اہلکار اپنی ڈیوٹی بنا تھکے مستعدی سے سرانجام دیتے رہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی مذموم سازش اپنے گھٹیا مقصد میں کامیاب ہوسکے، سالہا سال کے بعد پی ایس ایل نے حیرت انگیز طور پر اپنی جگہ بنا لی ہے۔ پہلے تین سیزنز میں متواتر خسارہ برداشت کرتے رہنے کے بعد سروائیو کرنا اور اپنی جگہ بنانا خوش آئند ہے۔