چودھری برادران حکومت کیساتھ کھڑے،اپوزیشن ہاتھ ملتی رہ گئی
تجزیہ: ندیم بسرا
چودھری برادران کے حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بعد اپوزیشن ’’ہاتھ ‘‘ ملتی رہ گئی۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کو ہٹانے کی از سر نو پالیسی بنانے اور حکومتی اراکین کو ٹکٹوں کا لالچ دے کر ساتھ ملانے کا فیصلہ کر لیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ لاہور میں جب وہ چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے لئے ظہور الہی روڈ پہنچے تو اس سے یہی لگ رہا تھا کہ عمران خان اپوزیشن کی سیاسی چالوں کو ناکام بنانے کے لئے پرعزم ہیں۔ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ وزیراعظم عمران خان کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے چودھری برادران سے ملاقات کے لئے قائل کیا۔ اس ملاقات کروانے میں شاہ محمود قریشی کا بھی نام لیا جا رہا ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی نے وزیراعظم سے ہلکے پھلکے انداز میں گلے شکوے کئے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ بطور اتحادی کھڑے رہیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے جب چودھری پرویز الہی کو وزیراعلی پنجاب بنانے کی یقین دہانی کروائی تو چودھری پرویز الہی اور ان کی جماعت نے اس وقت ہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپوزیشن کا ساتھ نہیں دینگے کیونکہ چودھری پرویز الہی کا سیاسی گراف 2018ء کے بعد سے اب تک بڑھا ہی ہے۔ ا س لئے اپنے سیاسی گراف کو بڑھایا جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی الگ شناخت قائم رکھی جائے۔ چاہے حکومت ہو یا اپوزیشن انہیں ہی مسلم لیگ ق کی ضرورت پڑی ہے۔ مسلم لیگ ق کوموجودہ حالات میں اپوزیشن کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ ق کا موجودہ حکومت کا ساتھ دینے کے فیصلے نے پی ڈی ایم کی تحریک عدعم اعتماد اور پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی وقتی طور پر ہوا نکال دی ہے۔ جس سے یہی لگ رہا ہے کہ اب اپوزیشن کے پاس صرف ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ حکومتی اراکین کو ٹکٹوں کا لالچ دے کر ساتھ ملائیں۔ تاہم ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ کے بعد پی ڈی ایم سے ایک بار دوبارہ علیحدگی کر سکتی ہے کیونکہ ان کے قریبی حلقوں کے مطابق پی ڈی ایم نے لانگ مارچ نہیں کرنا، جس سے یہی لگ رہا ہے کہ تحریک عدم اعتمادکامیاب ہونا مشکل ہو جائے گی۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی بھی2023 ء تک سندھ میں اپنی حکومت جاری رکھے گی اور لانگ مارچ سے اپنا ووٹ بنک مضبوط کریں گی اور اپنے اہداف لانگ مارچ سے حاصل کرے گی۔