روسی یلغار اور امریکی تھنک ٹینکس کی بے بسی
قارئین، روسی پالیسی اور روس کے یوکرائن پر حملے نے یورپ اور امریکا کے تمام اندازے غلط ثابت کر دئے ہیں۔ آج امریکا و یورپ کے تمام پالیسی ساز مخمصے کا شکار ہیں کے روسی اچانک یلغار کو کیسے روکا جائے۔یاد رہے اکیسویں صدی میں امریکی تزویراتی پلاننگ میں روسی حدودوقیود کا اسی طرح خاص اہتمام کیا گیا ہوا تھا جس طرح پاکستان و دوسرے ممالک کے متعلق امریکی پالیسی کا تعین بڑے باریک بین عمیق اندازوں سی آی اے اور مختلف تھنک ٹینک کی آرا کے بعد ذمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوے کیا جاتا ہے اس میں ان ممالک کی ماضی کی تاریخ سے بھی نتائج اخذ کئے گئے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک سابق امریکی وزیرخارجہ بریزینسکی کی کتاب جو انیس سو نوے کی دہائی کے آغاز میں لکھی گئی تھی۔ ’’چیس بورڈ آف ورلڈپالیٹکس‘‘ میں ضرور پڑھا ہوگا کہ مستقبل قریب و بعید میں پاکستان میں او ر اسکے قرب وجوار میں بھی دہشت گردی کی جنگ کی پیشین گوئی کی گئی ہے جو بہت طویل ہوگی جس سے علاقے کے تمام ممالک بہت دیر تک متاثر رہیں گے۔ اسی کتاب میں مشرق وسطی کے ممالک کے بارے میں بھی اندرونی خانہ جنگیاں اور شورش کا بدرجہ اتم موجود ہے ۔ آپ یاد کریں اس وقت کسی عرب ملک میں کوئی شورش برپا نہیں ہوئی تھی، لیبا، یمن، ایران، شام،حتی کے عراق میں بھی غرض اکثر عرب ممالک میں کوئی بغاوت یا شورش کے آثار نہ تھے جنہیں بعد میں ،،عرب سپرنگ رایزنگ،، کا نام دیا گیا، اسی دوران افغانستان میں اسامہ بن لادن کا ایک ہیولہ کھڑا کیا گیا اور روس کے انخلا کے بعد ایک خوفناک جنگ کا آغاز کیا گیا جس کو یورپی و امریکی میڈیا ،وار آن ٹیرر،، اور تمام ممالک جن میں وہ خود دہشت گردی اور شورش کی پیشین گوئی اورانکے سیاسی پالیسی ساز ادارے و شخصیات جن میں کسنجر برزنسکی اور دوسرے یورپی منصوبہ ساز تیار کر چکے تھے اسکی شروعات کر دئی گئیں جو آج بھی اسی شدت سے جاری و ساری ہیں۔ یاد کراتا جائوں کے ہر امریکی صدر اپنے چارسال کے عہدہ صدارت کے بعد جنوری میں ایک پالیسی سٹیٹمنٹ بیان کرتا ہے جسے وہ صدارتی سٹیٹ آف یونین ایڈریس کہتے ہیں جس میں وہ دنیا بھرکے اپنے چیدہ و خاص احباب کو سننے کی دعوت دیتے ہیں اور جس کو ساری دنیا غور سے سن رہی ہوتی ہے مثلاً جنوری دو ہزار سترہ میں اپنے آخری یونین آف سٹیٹ ایڈریس میں صدر اوباما نے انتہا ئی رعونت سے کھل کر کہا تھا کے پاکستان، ایشیا ، انڈیا وعرب ممالک بشمول مشرق وسطی میں شورشیں کئی دہائیاں جاری رہیں گی۔ اسی طرع قارئین امریکی و یورپ پالیسی سازوں نے روس کو بھی صرف ایک علاقائی یورپی ملک کی حیثیت دینے کا مصمم ارادے کا اظہار کیا تھا اور روس کو ہر گز سپر طاقت نہیں بننے دینے کا پختہ ارادہ وعمل سے اسے سپر طاقت بننے سے روکنا تھا اسی طرح جاپان، جرمنی، فرانس کوبھی، ان ممالک کی ماضی کی تاریخ پر غور رکھتے ہوہئے روس کی طرح ایک علاقائی طاقت کا درجہ دینے کا عندیہ دیا گیا تھا بلکہ یوکرائن کے وسیع علاقے و محل وقوع کو استعمال میں لا کر اس کو ناٹو میںشامل کر کے یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک کو ساتھ ملا کر ،،یوریشیا،، کو امریکا ، چین کے بعد ایک تیسری قوت کے طور پر سامنے لایا جائیگا۔نوے کی دہائی کے بعد عراق کو ایران کیخلاف خود ہی دیئے گئے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو بنیاد بنا کر عراق کو نیست و نابود کرنے مرسی کو اس حکم عدولی کی سزا دے کر موت کی وادی تک میں دھکیل دیا گیا اور اسرائیلی تحفظ کیلئے ہزاروں سال بعد آنیوالی مصری جمہوریت کو زندہ در گور کر دیا گیا پاکستان کو افغانستان میں پھنسا کر اس کو ایٹمی مسلم ریاست بننے کی سزا دینے کی منصوبہ بندی کی گئی س دوران روس کے چیچنیا پر مظالم پر صدرکلنٹن کی مجرمانہ خاموشی قابل غور ہے۔ اس سے پہلے ریگن کے مشہور زمانہ دور میں بدنام زمانہ جیفری ایپسٹین کو ایران کانٹرا سکینڈل میںاسی کی دہائی میں استعمال کیا گیا ایران عراق کو لڑوایا جاتا رہا۔ شتیلہ وصابرہ میں فلسطینی کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جاتے رہے بشمول پاکستان کے قبائلی علاقوںامریکا بذات خود میدان میں اتر کر ڈرون، ہیل فائر میزائل مسلم عوام پر چلاتا رہا۔ لیکن آج روس نے امریکا و یورپ کو بمعہ انکے ایم فائو، سی آئی اے اور تھنک ٹینکس کے اچانک یوکرائن پر حملہ کر کے حیران کر دیا ہے اور یورپ کے پاؤں تلے زمین کھسکا کر رکھ دی ہے روسی ٹیکنالوجی کے سامنے مغربی دنیا اقتصادی پابندیاں لگا رہی ہے لیکن یوریشیا کے نام پر بننے والی تیسرے سپر پاور بلاک کو دنیا کے سیاسی چیس بورڈ پر روس نے کھلا چیلنج کر کے امریکی و یورپی منافقت، اجارہ داری کو شدیدٹھیس پہنچائی ہے آج تمام مسلم ممالک اور افریقی ممالک کی نفرت چین کی سپر طاقت میں پناہ ڈھونڈ رہی ہے جو کہ برے وقت میں امریکا کے بجائے روس کا ساتھ دینے کو ترجیح دیگا۔ ادھرروس ہر گز نہیں چاہتا کہ یوکرائن، ناٹو، کا حصہ بنے جو کہ ایک مغربی فوجی اتحاد ہے۔کیا یہ نئی سرد جنگ یا تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز تو نہیں۔کیا روس یا یوکرائن عالمی سازش کا شکار تو نہیں ہو رہے ۔