دو ترمیمی آرڈیننسوں کا طوفان
پیکا ترمیمی آرڈیننس اور الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2022ء نے پاکستان کے صحافتی، لیگل کمیونٹی اور عوامی حلقوں میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ایسے میں جب عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت پوری طرح ڈگمگاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اگرچہ دونوں آرڈیننسوں کے حق میں میڈیا کے روبرو گفتگو کی اور اپنے آفس سے اس سے متعلق ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا۔ لیکن ان ترمیمی آرڈیننسوں نے جو آگ لگائی ہے وہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جہاں اور بہت سی باتیں حکومت کے گلے پڑیں گی وہاںصدر کے آفس سے جاری یہ دونوں آرڈیننس بھی حکومت کے گلے کا طوق بن جائینگے۔ آخر حکومت کو اتنی کیا عجلت تھی کہ مذکورہ دونوں ترمیمی آرڈیننس اسمبلی میں لانے اور انہیں منظور کرانے کی بجائے صدر کے ذریعے نافذ کر دئیے۔ جس پر ہر طرف گفتگو اور لے دے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پاکستان بھر کا میڈیا پیکا ترمیمی آرڈیننس کے اجراء پر سراپا احتجاج ہے۔ لاہور کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اس حوالے سے پی یو جے کے علاوہ ہائی کورٹ بار اور سپریم کورٹ بار نے بھی پٹیشنز دائر کر دی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی ہائی کورٹس سے رجوع کیا ہے۔ حکومتی وزراء پیکا ترمیمی آرڈیننس کو لیکر میدان میں اتر آئے ہیں اور اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پیکا آرڈیننس میڈیا کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ میڈیا کے حلقوں میں جو اضطراب پایا جاتا ہے ، اُس کی کیفیت شاید لفظوں میں بیان نہ ہو سکے۔ لیکن یہ بات طے اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمران خان اپنے اس اقدام سے میڈیا میں اپنی ہمدردی کھو رہے ہیں۔ اقتدار سے باہر آنے کے بعد انہوں نے سڑکوں پر نکلنے کی بات بھی کی ہے لیکن واضح رہے، میڈیا شاید اب انہیں پہلے والی وہ کوریج نہ دے سکے جو انہیں پانچ سال پہلے ملتی رہی ہے۔ میڈیا نے انہیں قوم کا نجات دہندہ بنا کر جب ٹی وی سکرین پر پیش کیا۔ تو وہ ہیرو بن کر سامنے آئے۔ عمران اپوزیشن میں تھے تو یہ بیان دیا کرتے تھے کہ حکومت (نواز شریف) میڈیا کی آزادی کو سلب کرنا چاہتی ہے جو وہ ہرگز نہیں ہونے دینگے اور پی ٹی آئی ، نوازشریف حکومت کے سامنے سیسہ پلائی بن جائیگی۔عمران خان میڈیا کی آزادی پر بہت یقین رکھتے تھے لیکن اب ایسا کیا ہوا کہ ہے آرڈیننس پیکا ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ فیک نیوز پر نوٹس لیا جائے گا جس کی سزا پانچ سال ہو گی۔ فوجداری قانون کے تحت یہ ایک ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔ اس آرڈیننس کے آرٹیکل 20کے تحت کسی بھی الزام علیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکے گی۔ الزام علیہ کو کسی تفتیش کے بغیر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ گرفتاری کا اختیار ایف آئی اے اور پولیس کے پاس ہو گا۔صحافتی اور وکلاء تنظیموں کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’’فیک نیوز‘‘ دینا، اُسے نشریا پرنٹ کرنا کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔ لیکن کیا تنقید پر بھی کسی کو اس آرڈیننس کا سہارا لے کر فیک نیوز کی آڑ میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت بڑا سوال، اور تشریح طلب بات ہے۔ متعلقہ آرڈیننس میں ’’فیک نیوز‘‘ کی کوئی تشریح بیان نہیں کی گئی۔ نہ وضاحت دی گئی ہے کہ فیک نیوز کا ’’معیار‘‘ کیا ہو گا۔ کوئی اینکر یا کسی ٹاک شو کا مہمان کسی ایشو کو لے کر حکومت پر تنقید یا گفتگو کرتا ہے تو کیا وہ بھی فیک نیوز کے زمرے میں آئیگی۔ کیا اُس کی گفتگو کو بھی فیک نیوز کا نام دیکر اس آرڈیننس کی زد میں لایا جا سکتا ہے، سزا دی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2022ء کا بھی اجراء کیا گیا ہے جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں الیکشن کمشنر کی زیر صدارت ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم کے علاوہ کمیشن کے تمام اراکین نے بھی شرکت کی۔ اس الیکشن ترمیمی آرڈیننس کے حوالے سے اجلاس میں تفصیلی گفتگو کی گئی۔ طے پایا کہ الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مل کر اپنے تحفظات سے آگاہ کریگی۔۔واضح رہے کہ اس ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے حکومتی وزراء پر الیکشن مہم میں حصہ لینے کی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ بلدیاتی ہو یا جنرل الیکشن۔ کسی بھی جلسے یا کارنر میٹنگ میں وزراء اور حکومتی نمائندے شریک ہو سکیں گے۔ صوبائی یا وفاقی وزراء کسی انتخابی جلسے میں جائینگے تو یقینا اُنکے پاس سرکاری وسائل، سرکاری گاڑیاں، گارڈز، وزارت کا پورا سٹاف اور پروٹوکول ہو گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا موقف ہے کہ یہ بنیاد بنے گا دھاندلی کی۔ وزراء اپنے گارڈز کے ساتھ پولنگ سٹیشنوں پر بھی جائیں گے اور غالب امکان ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشنز پر قبضے بھی کرلیں جس سے لڑائی جھگڑے ہوں گے اور ہر طرف فسادات پھیلیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت فی الفور ان دونوں آرڈیننسوں کو واپس لے ۔ ورنہ اُس کیلئے بہت ساری مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔