مادری زبان اور ہماری نوجوان نسل
انسانی عقل کا وہ عالجہ جس کے ذریعے کسی خیال یا حِس کا احساس ممکن بنتا ہے وہ گذشتہ یاداشتوں کے ساتھ مل کر ادراک کے جذبہ کی تشکیل میں ڈھل جاتا ہے ،ادراک کا عمل شعوری بھی ہو سکتا ہے اور لا شعوری بھی ،یہ قدرتی جذبہ ہوتے ہوئے عصرِ حاضر میںوقتی اور نمائشی جذبے کی نظر ہو گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل مادری زبان بولنے میں ہتک محسوس کرتی ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ اپنی ماں بولی سے نا آشناہو گئے ہیں، نا جانے ہمارا معاشرہ اس قدر تنگ دل اور تنگ نظر کیوں ہے کہ جب بھی کوئی فرد یا قوم اپنی مادری زبان میں تعلیم کے حصول کی بات کرے یا اسے صوبے کی حد تک حکومتی سطح پر دفاتر کی تحریری زبان قرار دینے کی بات کرے تو اے صوبائیت اور لسانیت کے تعصب میں کیوں لپیٹ دیا جاتا ہے ۔
نیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا ، اگر کسی آدمی سے ایسی زبان میں بات کی جائے جو وہ سمجھتا ہو تو آپ کی بات اس کے دماغ میں جاتی ہے ، اگرآپ اس سے اس کی زبان میں بات کرتے ہیں تو یہ اس کے دل میں اتر جاتی ہے ، ایک اہم نظریہ کے مطابق ہماری ذہنی نشو ونما گروہی زندگی یا مل جل کر رہنے کے لئے درکار شعور کی مر ہونِ منت ہے،لیکن ہم جبراً ایک دوسرے سے علیحدگی کی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر اجتماعی رشتوں کی تضحیک کر رہے ہیں ، جسکے سبب ہمارے معاشرے میں پریشانی ، فساد اور انتشار نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ، یکجہتی انحطاط کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی ہم نے اجتماعیت کے فلسفے کو پسِ پشت ڈال کرہر معاملہ کو جبر سے مسلط کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک دو لخت ہو گیا، 1952 ء میں اس وقت کی حکومت نے اردو کو واحد سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا جب کہ اردو ایک چھوٹی اقلیت کی بولی جانے والی زبان تھی جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں 98 فیصد بنگلہ بولی جانے والی زبان کی اکثریتی عوام نے 21 ، فروری 1952 ء کو سڑکوں پر آ کر شدید احتجاج کیا ، بالآخر 1971 ء میں مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کی نو تشکیل شدہ ریاست کے وجود میں آتے ہی وہاں بنگالی کو قومی زبان قرار دے دیا گیا ، جو کہ ایک لمحہء فکریہ ہے۔
ایک زبان صرف بات چیت کے ایک طریقہ کا ذریعہ ضرور ہے لیکن زبان خاص طور پر ہماری مادری زبان ہماری ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے ، زبان کو بدل لینے سے مادری زبان کا لب ولہجہ بدل سکتا ہے اور نا ہی تبدیل ہو سکتا ہے ، معروف ادیب، دانشور عطا ء الحق قاسمی صاحب اردو بولتے ہیں تو ان کی مادری زبان کا عکس نمایاں رہتا ہے بلکہ وہ اپنی مادری زبان کی ملاوٹ کرتے ہوئے بھی کسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کرتے بلکہ فخر سے اپنی مادری زبان کے چند الفاظ ضرور استعمال کرتے ہیں ، اسی طرح جب خیبر پختونخواہ ، سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے معزز حضرات اردو بولتے ہیں تو ان کے لہجے سے ان کی مادری زبان کا عکس ڈھلکتا ہے ، اس کے باوجود قومی زبان اردو سے ایک جنون کی حد تک لگائو ہے کہ الفاظ کے توڑ مڑوڑ کی پرواہ کئے بغیر روانی سے اردو بولے چلے جاتے ہیں ، لہجہ چاہے کچھ بھی ظاہر کرتا ہو۔
دنیا میں تقریباً سات ہزار زبانیں ہیں ، یو نیسکوکے مطابق ہر دو ہفتے بعد ایک زبان کا خاتمہ صرف اس وجہ سے ہو جاتا ہے کہ اسے بولنا معیوب سمجھ کر دوسری زبان کو اختیار کر لیا جاتاہے ، افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے علاقہ خگیان سے احمد شاہ ابدالی کے ساتھ آئے خوگانی یا خوگیانی جو کہ اب خاکوانی کہلاتے ہیں ، ان کی مادری زبان پشتو تھی جو کہ اب سرائیکی زبان بولتے ہیں ،سکردو میں کے ٹو اور کنکورڈیا کی راہ میں پاکستان کے آخری گائوں اسکولے کے عوام قومی زبان اور اپنی مادری زبان سے زیادہ انگریزی بولتے ہیں ، خدشہ ہے کہ اگلی دو تین نسلوں تک یہاں کی نوجوان نسل اپنی مادری زبان سے لا علم ہو جائے گی، خیبر پختونخواہ میں طورغر اور ضلع مانسہرہ کے سنگم پر پہاڑ کی ایک چوٹی پر ڈنہ نامی گائوں کے لوگ دنیا کی انوکھی بولی بولنے والوں کی کل تعداد صرف تقریباً چار سو کے قریب ہے چند صدیوں میں یہ زبان بھی معدوم ہو جائے گی ، گلگت بلتستان اور بھارت کے زیرے قبضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں بولی جانے والی ہزاروں سال قدیم زبان بروشکی کا شمار تیزی سے معدوم ہونے والی زبانوں میں کیا جاتا ہے، ان تمام زبانوں میں سے کم از کم 43 فیصد زبانیں خطرے سے دوچار ہیں جبکہ دنیا کی 100 سے کم زبانیں ڈیجیٹل کی دنیا میں استعمال ہو رہی ہیں ، یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی مادری زبان استعمال کرنے کا حق ہے ، ان کی یادوں ، روایات اور سوچ کے طریقوں کو بر قرار رکھنے کا حق ہے ، جو کہ ان کی زبان کی نمائندگی کرتی ہے ۔
بنگلہ دیش نے1999 ء میں 21 ، فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دینے کی درخواست کی ، 2000ء سے یونیسکو ہر سال 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منا رہا ہے، یہ دن معاشرے میں اخوت، محبت، ایثار اور یگانگت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔