پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کی مسجد درجنوں نمازیوں کے خون سے رنگین
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
وطن عزیز پاکستان میںہمارے امن و امان کی فضاء پر دشمن ایک بار پھر حملہ آور ہوا ہے ،خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مسجد میں اپنے رب کے حضور سر بسجودنمازیوں کو دہشتگردوں نے لہو میں نہلا دیا ،معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میںمرکزی جامع مسجد میںمیں خود کش حملہ کر کے معصوم نمازیوں کو شہید و زخمی کر دیا گیا ،اس اندوہناک واقعے پر پوری قوم سوگوار ہے۔ ،دہشتگردی کا یہ واقعہ پاکستان میں لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیے گئے امن پر حملہ ہے اور اس کے پیچھے ہمارے دشمن اور ان کے وہ آلہ کارہیں جو دہشتگردی کے خلاف ہماری قوم کے عزم کو متزلزل کر نے کی ناکام کو ششیں کر رہے ہیں ،یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب راولپنڈی میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ میچ جاری ہے، یہ خود کش دھماکا سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ غیر ملکی قوتیں پاکستان کا امن تباہ کرنا چاہتی ہیں۔جانوں کے نذرانے پیش کر کے قائم کیے گئے امن کی حفاظت پاکستانی قوم کا عزم ہے۔ دہشت گردوں نے معصوم نمازیوں کو نشانہ بنا کر انسانیت پر حملہ کیاہے۔ پشاور دھماکا ایک بڑی سازش کی کڑی ہے، ہماری قوم نے ماضی میں بھی ایسی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے اور انشاللہ پاکستان کے دشمن ناکام ہوں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے پشاور دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی اور واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے،وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی پشاور میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے بم دھماکے سے جانوں کے ضیاع پر دکھ اور شہید ہونے والے نمازیوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیاہے،شیخ رشید نے کہا کہ آسٹریلیا کی ٹیم 24سال بعد پاکستان آئی ہے، ملک دشمن قوتوں سے آسٹریلوی ٹیم کی آمد برداشت نہیں ہوئی۔حملے کے بعد ملک کی تمام سیاسی قیادت کی طرف سے اس کی پرزور مذمت اس بات کی غمازی ہے کہ پوری قوم دہشتگردی کے خلاف پر عزم ہے اور اسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔
خیبر پختونخواکے دارالحکومت پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میںمرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے حملے میں کم از کم 56افراد ہلاک جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال محمد عاصم نے دھماکے میں56ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 194زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ شدید زخمیوں کو بروقت طبی سہولیات فراہم کی گئیں تاہم چند زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ پشاور کے ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے بتایا کہ بظاہر یہ ایک خودکش حملہ تھا جس کے دوران گیٹ پر موجود پولیس اہلکاروں کو پہلے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد حملہ آور نے مسجد میں گھس کر دھماکہ کیا۔ حملہ آور نے پہلے گیٹ پر موجود پولیس کے محافظوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل ہلاک جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوا۔ جس وقت نمازِ جمعہ کی تیاری جاری تھی اس وقت کم از کم ایک حملہ آور پستول لے کر مسجد میں آیا اور نمازیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور فائرنگ کے بعد حملہ آور نے بم کا دھماکہ کیا،ایس ایس پی آپریشنز نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے کوئی مخصوص تھریٹ الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ عمومی الرٹ کے تحت سکیورٹی تعینات تھی۔حملے کے حوالے سے کوئی تھریٹ الرٹ موصول نہیں ہوا تھا۔ مسجد میں نمازِ جمعہ میں ہونے والے خود کش دھماکے میں محفوظ رہنے والے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ کالے کپڑوں میں ملبوس خود کش حملہ آور نے خود کو منبر کے سامنے اڑایا۔ خود کش حملہ آور نے سیکیورٹی گارڈ کو ٹارگٹ کیا، اس نے 5 سے 6 فائر کیے اور تیزی سے مسجد میں داخل ہوا، جہاں اس نے منبر کے سامنے پہنچ کر دھماکا کر دیا۔عینی شاہدین کے مطابق جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ حملہ آور نے دھماکہ کرنے سے قبل فائرنگ بھی کی۔مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں زخمیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔مرکزی مسجد کوچہ رسالدار پشاور میں مرکزی شیعہ مسجد ہے جہاں پر تقریبا پورے پشاور سے لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے آتے ہیں۔ تنگ راستوں کے باعث زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ جائے حادثہ تک گاڑی نہیں جا سکتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ زخمیوں کو تین سے چار سو میٹر تک ہاتھوں اور چارپائیوں پر اٹھا کر سڑک تک پہنچایا گیا اور وہاں سے پھر ایمبولینس کے ذریعے سے ہسپتال لے جایاگیا۔ مسجد میں جمعہ کا خطبہ جاری تھا کہ اس دوران پہلے انتہائی شدید فائرنگ ہوئی۔ ایسے لگا کہ دو اطراف سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ فائرنگ کا سلسلہ شاید ایک یا دو منٹ تک جاری رہا ہو گا کہ اس کے بعد فورا شدید دھماکے کی آواز آئی۔مسجد کے در و دیوار دھماکے سے لرز اٹھے۔
یہ مسجد زیادہ بڑی نہیں ہے۔ اس میں 400سے 450نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ واقعے کے وقت مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔حکومت خیبر پختونخوا کے ترجمان بیرسٹر محمد سیف نے تصدیق کی کہ دھماکے کے اندر ہونے والا دھماکا خودکش تھا جس میں دو حملہ آور ملوث تھے۔ دھماکا مسجد کے اندر نمازِ جمعہ کے دوران ہوا۔ابتدائی طور پر دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول کرنے کا دعوی نہیں کیا۔دھماکے کی اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ریسیکیو ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ گئی ہیں، اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔انتظامیہ نے قریبی ہسپتالوں میں ہنگامی صورتحال نافذ کردی جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کیے۔انسپکٹر جنرل(آئی جی)خیبر پختونخوا معظم جا انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حملے کے وقت پولیس موقع پر موجود تھی اور عبادت گاہ کے باہر 2اہلکار سیکورٹی تعینات تھی انہوں نے کہا کہ حملے میں ایک کانسٹیبل موقع پر شہید ہوا جبکہ دوسرے پولیس اہلکار کی حالت تشویشناک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے پستول سے فائرنگ اور پھر خودکش حملہ کیا گیا، دہشت گرد کالے کپڑوں میں ملبوس تھا جبکہ دھماکے میں5سے 6کلوگرام دھماکا خیز مواد استعمال ہوا۔آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ دھماکے کے حوالے سے کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک دہشت گرد کو دیکھا گیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے پشاور دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی اور واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی پشاور میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے بم دھماکے سے جانوں کے ضیاع پر دکھ اور شہید ہونے والے نمازیوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا۔انہوں نے چیف سیکریٹری اور آئی جی خیبر پختونخوا سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پشاور کی جامع مسجد میں دھماکے کی مذمت اور گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔انہوں نے شہدا کے لواحقین سے اظہار ہمدردی، شہدا کے لیے دعائے مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی کوچہ رسالدار، پشاور میں مسجد میں خودکش دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی اور تعزیت کرتے ہیں۔اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کے حضور سربسجود نمازیوں پر یہ اندوہناک حملہ کرنے والے نہ مسلمان ہو سکتے ہیں نہ ہی انسان۔انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی سنگین ہوتی صورتحال لمحہ فکریہ ہے، طویل عرصے سے بار بار توجہ دلا رہا ہوں کہ سر اٹھاتی دہشت گردی پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے، دہشت گردی کی واپسی ملک و قوم کے لیے نیک فال نہیں۔مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم اورنگزیب نے کہا کہ پشاور میں دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے شہروں میں پھر سے بارود کی بو پریشان کن ہے، جانوں کے نذرانے پیش کر کے قائم کیا گیا امن نااہلی کی نذر ہو گیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پشاور میں دہشت گردی پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے معصوم نمازیوں کو نشانہ بنا کر انسانیت پر حملہ کیا۔انہوں نے دھماکے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو فوری گرفتار کیا جائے جبکہ زخمیوں کو علاج و معالجے کی بہتر سہولیات مہیا کی جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر حقیقی عملدرآمد نہ ہونا افسوسناک ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ پشاور دھماکا ایک بڑی سازش کی کڑی ہے، ہم نے ماضی میں بھی ایسی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے، انشاللہ اب بھی پاکستان کے دشمن ناکام ہوں گے۔پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما سینیٹر شیری رحمن نے بھی پارٹی چیئرمین کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کہا کہ نمازیوں پر حملہ تمام انسانیت پر حملہ ہے۔انہوں نے خطے میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے میں ناکامی پر حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پشاور دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحومین کی مغفرت اور زخمیوں کی صحتیابی کی دعا کی۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے اور اتنی محنت سے حاصل کیا گیا امن اس نااہل حکومت کے ہاتھوں پھر سے تباہ ہونے کی طرف جارہا ہے۔صوبائی وزیر کامران بنگش نے بھی لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ راستے میں ہیں اور ہسپتال جارہے ہیں۔
پشاور دھماکے کی سامنے آنے والی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاہ لباس میں خود کش حملہ آور کو پہلے فائرنگ کرتے اور پھر تیزی سے مسجد میں جاکر دھماکا کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔پشاور کے قصہ خوانی بازار کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ میں ہوئے خود کش دھماکے کے بعد وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کو بھی لاہور کا پروگرام منسوخ کرنے کا اعلان کر نا پڑا۔وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اس دھماکے کا کوئی تھریٹ الرٹ بھی جاری نہیں ہوا تھا۔، بعض لوگ ملک میں انتشار چاہتے ہیں۔وفاقی وزیرِ داخلہ کا مزید کہناتھا کہ یہ خود کش دھماکا سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔شیخ رشید کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر ملکی قوتیں پاکستان کا امن تباہ کرنا چاہتی ہیں، چیف سیکریٹری اور آئی جی کے پی کے سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ آسٹریلیا کی ٹیم 24 سال بعد پاکستان آئی ہے، ملک دشمن قوتوں سے آسٹریلوی ٹیم کی آمد برداشت نہیں ہوئی۔ ھماکا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کا حصہ ہے، ملک دشمن خلفشار چاہتے ہیں، غیر ملکی قوتیں پاکستان کا امن خراب کرنا چاہتی ہیں۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کی ٹیم 24 سال بعد پاکستان آئی ہے، ملک دشمن قوتوں سے آسٹریلوی ٹیم کی آمد برداشت نہیں ہوئی، اس دھماکے میں وہی لوگ ملوث ہیں جو پاکستان کی ترقی برداشت نہیں کرسکتے، یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کا اندازہ اعداد و شمار کی مدد سے لگایا جائے تو2013میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریبا چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020میں کم ہو کر 319رہ چکے تھے۔ پاکستان میں امن کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ اس کا ایک اظہار پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی شکل میں بھی ہوا۔گذشتہ برس اگست میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی ایک ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں اس تبدیلی کا تعلق ایسے گروہوں سے تھا جن کے بارے میں پاکستان کا مقف تھا کہ یہ گروپ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛