• news

بلاول عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے غیر یقینی صورتحال سے دو چار

تجزیہ: محمد اکرم چودھری
بلاول بھٹو زرداری تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اگر انہیں پورا یقین ہوتا تو وہ یہ کبھی نہ کہتے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ بھی ہوئی تو چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ پیپلز پارٹی اس تحریک کے حوالے سے اہم سیاسی جماعت ہے اور اگر اس کے چیئرمین کو سو فیصد یقین نہیں ہے تو پھر اس ساری مشق کا بڑا مقصد سیاسی درجہ حرارت میں شدت برقرار رکھنا اور آئندہ عام انتخابات کی تیاری ہے۔ تحریک کا نتیجہ کوئی بھی رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی گراؤنڈ میں ہر طرف شاٹس کھیل رہی ہے۔ وہ حلقے جیتنے والوں کو واپس بھی لا سکتی ہے اور صرف سندھ ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ اس سیاسی سرگرمیوں کا ایک مقصد آئندہ عام انتخابات کی تیاری بھی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے بہتر حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی وہ سب سے اہم جماعت ہے گوکہ کسی حد تک اپوزیشن مصلحتاً ہی سہی متحد نظر آتی ہے لیکن پھر پی پی پی کے سینئر رہنما اعلیٰ قیادت کو میاں نواز شریف پر اعتبار کرنے کے حوالے احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ریاستی اداروں کے حوالے گفتگو کرتے ہوئے بہرحال احتیاط ضرور کرنی چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم اداروں کو متنازعہ بنا رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ حقائق کے برعکس ہے۔ درحقیقت یہ کام اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ہو رہا ہے۔ ریاستی اداروں کے خلاف مہم یا انہیں متنازعہ وزیراعظم عمران خان یا ان کی ٹیم نہیں بلکہ میاں نواز شریف، مریم نواز اور ان کے چند من پسند افراد اور مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں۔ سیاسی معاملات میں ریاستی اداروں کو ملوث کرنے کا مطلب صرف اور صرف اپنی ناکامیوں کو چھپانا اور مظلوم بنا کر پیش کرنا ہے۔ حالانکہ شور مچانے والوں کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی ہے نہ ہی وہ مظلوم ہیں۔ آج پاکستان کو درپیش مسائل کی بنیاد جمہوریت کے ان علمبرداروں نے ہی رکھی تھی۔ حکومت سے باہر ہونے پر انہیں سب کچھ برا دکھائی دینے لگا ہے۔ سیاسی میدان سامنے ہے جمہوری راستہ سب جانتے ہیں تحریک عدم اعتماد پیش کریں کسی نے روکا تو نہیں ہے۔ پھر ہر دوسری تقریر میں اداروں کو پکارنے اور یاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن