فلاحی معاشرہ ممکن ہے لیکن۔۔۔
آج کل ہم نے معاشرے میں ایسے لوگوں کو سر پہ بٹھانے کا رواج بنایا ہوا ہے جن کے پاس مال و دولت ہے ،جن کے تعلقات اعلی عہدیداروں سے ہیں،جن کی معاشرے میں عزت کی وجہ تعلیم و تربیت نہیں ہے بلکہ لوگ ان سے ڈر کے ان کی عزت کرتے ہیں۔لیکن اگر ہم تھوڑی ہمت اپنے اندر پیداکر لیں اور یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر حال میں معاشرے میں علم و ادب سے وابستہ لوگوں کو عزت دینی ہے ۔تو آنے والے چند سالوں میں ہی ہم دیکھیں گے کہ معاشرے کا ہر فرد تعلیم و تربیت کی طرف دھیان دینے لگے گا ۔مثالی معاشرہ کے خواب ہر کوئی دیکھتا ہے لیکن عمل کرنے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا۔اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے اپنااور اپنے خاندان کا سکون برباد نہیں ہونے دینا توہمیں فضول خرچی چھوڑ کے میانہ روی اور سادہ زندگی گزارنے کی کوشش کرنا ہوگا ۔ سادگی کا مطلب کنجوسی ہر گز نہیں ہے بلکہ کہ ایسے طور طریقوں سے بچنے کی کوشش کرنا ہے جو بے جا نمود نمائش کے زمرے میں آتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ ہمارے لوگ اپنے پاس موجود وسائل کے حساب سے اپنابجٹ تشکیل دینے کی بجائے معاشرے میں اپنی ’ٹوور‘ بنانے کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کے خرچ کرتے ہوئے مقروض ہورہے ہیں ۔ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ جو کام کرتے ہیں وہ اپنے آرام و سکون کے لیے نہیں بلکہ یہ دیکھتے ہوئے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’لوکی کیہ کہن گے‘‘یعنی ہم لوگوں کو متاثر کرنے کی فکر میں خود متاثرین میں سے ہو جاتے ہیں۔ایک طرف رونا اس بات کا ہے کہ ہمارا معاشی نظام سنگین بحران کا شکار ہے تو دوسری طرف ریاستی او رحکومتی سطح پر وسائل کا بے دریغ استعمال اور خاص طور پر حکمرانی کے نظام میں جو شاہانہ انداز ہے وہ ہمارے داخلی تضاد کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلی، گورنر، وزرا، ججز اور اسٹیبلشمنٹ سے جڑے افراد کے دفاتر او رگھروں کے سرکاری اخراجات کی تفصیل کو دیکھ لیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ملک پہ قرضوں کا بوجھ کس وجہ سے بڑھتا چلا جارہا ہے ۔
صاحبو! ہم نے یہ نقطہ سمجھ لینا ہے کہ معاشرہ ہم سے بنتا ہے ۔ہم ہی ہیں جو معاشرے میں رسم و رواج کی ترویج کا سبب بنتے ہیں ۔ہم ہی ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ معاشرے سے وابستہ کن لوگوں کو عزت دینی ہے ۔آئیں ذرا غور کریں کہ اگر ہمارے حکمران کے کردار اچھے نہیں ہیں تو ہم خود کس صف میں کھڑے ہیں ۔اگر حکمران عیاش ہیں تو عوام کیا کر رہی ہے ۔اگر حکمران قرض لے کے ملک چلا رہے ہیں تو کیاعوام قرض لے کے اپنے اخراجات پورے نہیں کر رہی ہے؟ ۔ہمیںیہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا تعلیمی، خاندانی، سماجی، اصلاحی اور مذہبی نظام اصلاحات چاہتا ہے ۔کیونکہ ہم معاشرے میں تربیت کا ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں جس سے ملک میں سادگی کے کلچر کو تقویت ملتی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ معاشرے کی تربیت پہ معمور لوگ اپنی تقریروں، تحریروںسے توسادہ زندگی گزارنے کی بڑی تلقین کرتے ہیں، مگر عملی طور پر ان کی اپنی زندگیاں نمود و نمائش سے بھر پور ہوچکی ہیں۔حال تو یہ ہے کہ علمائے کرام کے پہناوے سادگی سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ہم چونکہ قران کو سمجھ کے پڑھتے ہی نہیں ہیں اس لیے اس کے پیغام سے دوری کے باعث معاشرے میں عدل و انصاف اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کا برتائو بھی ختم ہو گیا ۔ ہم نے اس آفاقی سبق کو بھلا دیا اور غیروں نے اس کو اپنا کر آج ترقی یافتہ اور مہذب قوموں کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا۔ اسی لئے وہاں عدل و انصاف ہے، فکری اور سائنسی علوم پر کام کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں الفاظ کے معنی اور مفہوم ہی بدل گئے ہیں۔ اگر ہمارا مقصد ایک فلاحی معاشرے کا حصول ہے تو آج ہمیں علم کے ساتھ عمل بھی شروع کرنا پڑے گا ۔قرآن پاک پڑھ کے نیکیاں بھی سمیٹنی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اس پاک کلام کو سمجھ کے اپنی زندگیاں بھی سنوارنے کی کوشش کرنا ہوگی ۔صرف باتیں ,صرف بیانات,صرف لیکچرز,صرف اپنے علم پہ ناز,صرف اغیار کے طرح اٹھنا بیٹھنا,کھانا پینا ہمیں کبھی اس دنیا میں کامیابی نہیں دلائے گا بلکہ ہمیں قران کے ارشادات کے مطابق قومو ںکے عروج وزوال کے قصوں پر بھی غور و فکر کرنا ہوگا ۔آج اپنی علمی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے کی بجائے فکری سوچ کو پروان چڑھاکے مسلم معاشرے کو اخلاقی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا ۔صلح جوئی,در گزر,معاملہ فہمی کے ساتھ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو دیکھ کے اپنا آج درست کرنے کی پلاننگ کرنا ہوگی ۔