ترپ کا پتا
مارچ کا مہینہ حکومت ، اپوزیشن اور عوام کیلئے خاصے امتحان کا مہینہ ثابت ہو رہا ہے پہلے صرف طالب علموں کیلئے یہ مہینہ امتحان کا مہینہ ہوتا تھا اور اپریل میں رزلٹ کا انتظار کیا جاتا تھا آپ تو لگتا ہے کہ ہر روز کوئی نیا امتحان ، نیا حادثہ، نیا سانحہ برپا ہو رہا ہے ہر روز کوئی نیا نتیجہ سامنے آ جاتا ہے پرانے زخم ابھی مندمل نہیں ہو پاتے اور کوئی نیا حادثہ کسی خبر کی زینت بن جاتا ہے۔ روایتی مذمتی بیانات اور حب الوطنی کا جذبہ اجاگر ہونے لگتا ہے نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا جیسے اب امتحان در امتحان ہی اس قوم کا وطیرہ بنتا جا رہا ہے۔ قومی سطح پر تو مارچ لانگ مارچ کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے عالمی سطح پر بھی کئی طاقتیں پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے درپے ہیں کئی سالوں بعد آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان آئی اور دوسرے ہی روز پشاور میں بم دھماکے کی وجہ سے ملکی فضا سوگوار ہو گئی۔ عالمی طاقتیں پاکستان مخالف بلاک میں جانے کا غصہ اتاررہی ہیں تمام تر توقعات اور اقدامات کے باوجود پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں ہے۔ ملک میں کرپشن پر قابو نہیں پایا جا سکا پہلے ہزاروں اور لاکھوں کی کرپشن کی خبریں گرم ہوتی تھیں اب تو کروڑوں اور اربوں روپے ہضم کرنے کی بریکنگ نیوز سامنے آنے لگی ہیں۔ ملک میں امن و امان کی ناکامی اور مہنگائی پر قابو نہ پانا موجودہ حکومت کی ناکامی اور نااہلی تصور ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کے دبائو پر وزیراعظم نے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا جو اعلان کیا ہے اگرچہ وہ خوش آئند ہے مگر صورتحال ’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ‘‘والی نظر آ رہی ہے بلکہ اس کا تاثر بھی منفی سامنے آیا ہے کہ حکومت جب چاہے قیمتیں بڑھا سکتی ہے اور چاہے تو کم کر سکتی ہے اس قسم کے اقدامات حکومت کو کسی دبائو کے بغیر عوامی مفاد اور حکومتی پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر کرنا چاہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت مخالف تحریک بھی محض ایک ایجنڈا اور پراپیگنڈہ ہے۔ عوام کا حکومت اور اپوزیشن دونوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے اب چاہے حکومت کے خلاف عدم اعتماد ہو یا اپوزیشن کے خلاف بات ایک ہی ہے۔ اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اور سیاست دان ایک بار پھر اقتدار کے مزے لوٹنے کے متمنی ہیں۔ عوام یا عوامی مسائل سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس موجودہ مسائل کے حل یا ان کے خاتمے کا کوئی حل اور کوئی پروگرام ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی اور سیاست دان اب محض نظریہ ضرورت کے اسیر ہو کے رہ گئے ہیں۔ عوامی سیاسی یا جماعتی مفاد کسی کو عزیز نہیں ہے۔ وزارتیں اور عہدے تک خریدنے کی بات ہو رہی ہے۔ اراکین اسمبلی کے دام لگائے جا رہے ہیں اور انہیں زیر دام لانے کیلئے کئی پلان بن رہے ہیں کاش ہماری حکومتیں ہماری سیاسی جماعتیں عوام کی بہتری کیلئے بھی کوئی پلان بناتیں تو آج عوام کو اتنے برے دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اگلا سال یقینا الیکشن کا سال ہے یہ سال بھی جیسے تیسے گزر جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی چہل قدمی کا موقع مل گیا ہے ان کے کارکنوں کی مصروفیت بھی نکل آئی ہے باقی جہاں تک حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ ہے تو فی الحال یہ دال گلتی نظر نہیں آ رہی اپوزیشن کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود حکومت اپنا عرصہ اقتدار پورا کرتی نظر آ رہی ہے۔ نمبروں کی گیم میں کس کے نمبر کتنے ہیں اس کا اندازہ تو وقت آنے پر ہی لگے گا تاہم اس وقت ترپ کا پتا وزیراعظم کے ہی پاس ہے جسے وہ کسی بھی وقت استعمال کر کے موجودہ بحرانی صورتحال سے باآسانی نکل سکتے ہیں بہرحال ان کے لیے پتے کی بات یہ ہے کہ اس دوران دوست دشمن کی بھی پہچان کرلیں اور عوامی مسائل کے حل کیلئے موثر حکومتی اقدامات کے ذریعے عوام کو ریلیف دیں۔ پٹرول و بجلی کی قیمتوں میں توازن کے ساتھ ساتھ ملک سے بدامنی، فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کریں اور حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے نوجوانوں کیلئے روزگار کی فراہمی کو بھی یقینی بنائیں اور آسان قرضوں کی پالیسی وضع کر کے ملک میں روزگار کے مواقع فراہم کریں تو آنے والا سال حکومت اور عوام کیلئے کچھ اچھی اور خوشی کی خبریں لا سکے گا۔عالمی سطح پر پاکستان خاصی اہمیت کا حامل ہے موجودہ روس یوکرائن جنگ، افغانستان اور بھارت کے حالات اور پاکستان کا روس اور چین کی طرف جھکائو عالمی سطح پر بہت سوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ایسی صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کے ذریعے عوامی مسائل کے ایجنڈے پرکام کرنا چاہیے تاکہ داخلی طور پر ملک میں عدم استحکام کا خاتمہ ہو کہ اس کے بعد ہی دیریا امن بھی قائم ہو گا اور باقی معاملات بھی صحیح سمت اختیار کر سکیں گے۔