پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ اورعمرانی پیکیج
اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی کسی بھی طرح اعتماد اور بھروسے کے قابل نہیں ۔ اس سیا سی جماعت کے موجودہ قائد آصف علی زرداری کی یہ بات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج بھی سنہری لفظوں سے لکھی ہوئی ہے کہ سیاسی وعدے قرآن اور حدیث نہیں ہوا کرتے ۔ آصف علی زرداری نے نہ صرف یہ بات کہہ کر اپنے مخفی ارادوں سے خود ہی پردہ اٹھا دیا تھابلکہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اس پر عمل کرکے بھی دکھا دیا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ گلبرگ تھرڈ لاہورکے قریب واقع سیون اپ چوک کے ریلوے پھاٹک سے گزرنے والے ٹرین کے سامنے ایک نوجوان شادی شدہ عورت نے غربت سے تنگ آکر چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی ، حسن اتفاق سے ان دنوں میری رہائش بھی اسی علاقے میں تھی ۔ جب یہ خبر قومی اخبارات میں شہ سرخیوں کی شکل میں شائع ہوئی تو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی خود کشی کرنے والی عورت کے گھر واقع مکہ کالونی میں بطور خاص تعزیت کے لیے تشریف لائے اور مرنے والی عورت کے لواحقین سے جب تعزیت کررہے تھے تو وہاں خودکشی کرنے والی عورت کی بوڑھی ماں نے التجا بھر ے لہجے میں وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا جنا ب مہنگائی کو کنٹرول کریں ورنہ ہم سب باری باری ٹرین کے سامنے کود کر خود کشی کرلیں گے ،ہمارا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے اور قرض دینے والوں نے ہمارا جینا حرام کررکھا ہے ۔ بوڑھی عورت کی باتیں سن کر سید یوسف رضا گیلانی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور انہوں نے عمررسیدہ عورت کے روبرو وعدہ کیا میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات کروں گا تاکہ آپ سمیت تمام غریبوں کو سکھ کا سانس مل سکے ۔ سید یوسف رضا گیلانی وعدہ کرکے ہوٹر بجاتی ہوئی گاڑیوں کے جلوس میں ایسے روانہ ہوئے کہ پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ماں جیسی بوڑھی عورت سے کیا جانے والا وعدہ اپنے قائد کے اقوال زریں کے مطابق ایسے بھولا دیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ،اس کے بعد پیپلز پارٹی حکومت کا ہر اقدام مہنگائی بڑھانے کے لیے ہی اٹھایا گیا ۔ اس وقت کے اخبارات اٹھاکر دیکھ لیے جائیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں نہ صرف اندھا دھند مہنگائی کی گئی بلکہ روٹی کپڑا مکان کے نعرے کو لپیٹ کر سمندر برد کردیا گیا ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ گلی گلی کوچے کوچے لگاتی ہے لیکن برسراقتدار آکر عوام سے روٹی کپڑا مکان ہی سب سے پہلے چھینتی ہے ۔
اب آصف علی زرداری کبھی شہباز شریف سے ملاقاتیں کررہے ہیں تو کبھی چودھری برادران سے۔ اب تو وہ منصورہ کا چکر بھی لگاچکے ہیں ۔ سندھ کی حکومت تو ان سے سنبھالی نہیں جاتی ،مرکزی حکومت کو بھی کسی نہ کسی طرح حاصل کرنے کی جستجو کررہے ہیں۔آجکل بلاول کے لانگ مارچ کا بہت چرچا ہے۔ میں سمجھتا ہوں بلاول اپنی جوشیلی تقریروں سے غریبوں اور مزوروں کی ایک بار پھر ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ابھی بلاول کی جوشیلی تقریریں جاری تھیں کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے فی لیٹر کمی اور بجلی کے فی یونٹ ریٹ میں پانچ روپے کمی کرکے عوام کے غم و غصے کو کسی حد تک کم کرنے کی جستجوکی ہے ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت میں 70روپے بڑھا کر 10روپے کم کرنا کوئی معرکہ نہیں ہے لیکن بجٹ تک مزید بجلی اور پٹرول کی مزید قیمت نہ بڑھانے کا اعلان واقعی مستحسن اقدام ہے ۔ لیکن اعلان کے کئی دن گزرنے کے باوجود پٹرول پمپوں پر وہی پرانے نرخ وصول کیے جارہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے ۔قیمتیں جب بڑھتی ہیں تو اسی وقت قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں جب کم ہوتی ہیں تو نئے سٹاک کا بہانا بناکر لوٹ مارجاری رکھی جاتی ہے ۔قصہ مختصر عمران خان نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کرکے حکومت کے خلاف عوام کے جذبات کو کسی حد تک ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن یہ بات معنی خیز ہے کہ جب پٹرول اوربجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو تمام اشیائے خورد نوش بلکہ انسانی استعمال کی ہرچیز کی قیمتوں حکومتی اضافے سے کہیں زیادہ خود ہی بڑھا لیا جاتا ہے لیکن جب حکومت قیمت کم کرتی ہے تو تمام چیزوں کی قیمتیں پرانی جگہ پر فکس ہی رہتی ہیں ۔اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت انتظامی اعتبار سے بالکل ناکام ہیں جو اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے سے ہر جگہ ناکام دکھائی دیتے ہیں۔