عورت کا استحصال کیوں اور کیسے؟
یہ ہمارے دین اسلام کا کیسا اعجاز ہے کہ اس نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی انسانوں کے ایک کمزور اور نازک طبقے خواتین کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے اس کے لیے اعلی ترین اور پرکشش ترین سہولت کا بندوبست کر دیا۔ اس طبقے کے لیے اعلان کیا گیا: وقرن فی بیوتکن (الاحزاب33) آپ صرف گھر سنبھالیں،اس کے بدلے آپ کی تمام ضروریات آپ کا شوہر،آپ کا باپ،آپ کا بھائی اور آپ کا بیٹا پوری کرے گا۔لیکن افسوس اتنی عظیم پیشکش کو ہمارے اس طبقے نے اپنے حقوق کے منافی قرار دے دیا۔ عورت کی ہر طرح کی ناز برداری برداشت کرنے والے ایک مرد کی اطاعت و فرمانبرداری چھوڑ کر اس نے پورے معاشرے کے مردوں کی غلامی کو ترجیح دے دی۔ پہلے وہ صرف گھر داری کرتی تھی۔ نئی نسل کی پرورش و تربیت کا سب سے کٹھن فریضہ ادا کرتی تھی اور گھر میں ملکہ اور شہزادیوں کی طرح رہتی تھی۔ اب وہ مغرب کے پھیلائے ہوئے جال میں آ کر ڈبل نوکری کر رہی ہے۔ گھر کی بھی اور باہر کی بھی جبکہ اس نے اپنی عزت و صحت کا الگ بٹا لگایا ہوتا ہے۔
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ماڈرن عورتوں کو اسلام کے بنیادی احکام کا بھی شاید ہی علم ہوتا ہے لیکن اسلام نے انہیں جو حقوق دیے ہوتے ہیں ،اس کی ایک ایک بات کا انہیں اتنا علم ہوتا ہے کہ شاید کسی عالم کو بھی نہ ہو،انہیں نہیں معلوم ہوتا تو اسلام میں ان کے فرائض کا۔ فرائض کے معاملے میں وہ ایسے لاعلم ہو جاتی ہیں جیسے انہوں نے اس بارے کبھی کچھ سنا ہی نہ ہو۔ یہ مغرب زدہ دوہرے رویے کی حامل عورتیں کسی غیر محرم مرد کے ساتھ بازاروں ،ہوٹلوں اور پارکوں میں جانا تو اپنے برابری کے حقوق کا تقاضا سمجھے۔ مردوں کو خود اپنے ساتھ ہلا گلا کے لیے بلائے اور کہے میر ا جسم میری مرضی۔ پھر ان کے ساتھ مل کے بے باکانہ ڈانس اور مجرے کرے اور ٹھمکے لگائے لیکن جب اس بازار میں جا کر،اس پارک میں جا کر اور اس ہوٹل میں جا کر اس کے ساتھ انہونی ہو جائے تو پھر سارا قصور مرد کا۔ دنیا کے تمام قوانین میں یہ بات سنی اور تسلیم کی گئی ہے کہ اگر کسی سے اشتعال میں آ کر اچانک قتل ہوجائے تو اسے بہرحال ویسی سزا کا مستحق نہیں سمجھا جاتاجو قانون میں واقعی ایک قاتل کی سزا ہوتی ہے لیکن یہاں مرد کو اس قدر جنسی طور پر مشتعل کیا جائے اور عورت کے دیے گئے اشتعال کی وجہ سے مرد بھی جواباً کچھ کر بیٹھے تو ظالم صرف مرد اور عورت مکمل معصوم اور مظلوم ۔ مرد عورت کی عریانی و فحاشی،بے پردگی اور آزاد روی و آوارہ پن کی وجہ سے اسے گھور بھی بیٹھے تو مرد پر فورا جنسی ہراسانی کا الزام حالانکہ جنسی طور پہ ایسی عورت ہی مرد کو ہراساں کرتی ہے لیکن اس عورت پر کوئی مقدمہ نہیں۔
شوبز کی بڑی بڑی اداکارائیں اور ماڈلز آج یہ راز بتاتی پھرتی ہیں کہ فلاں مرد نے انہیں جنسی طور پہ ہراساں کیا، انہیں ہاتھ لگایا یا کچھ اور دست درازی کی لیکن یہ موقع انہیں کس نے دیا؟ شوبز میں، فلموں میں عام طور پر اداکار کا اداکارہ کو ہاتھ لگانا،گلے لگانا اور جسم کو کہیں سے بھی مس کر لینا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی بلکہ اسے پروفیشن کا تقاضا کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس آڑ میں جو فحش ترین سین فلمائے جاتے ہیں ، انہیں فحش سین کی بجائے’بولڈ سین‘ اور ایسی اداکارہ کو فاحشہ کی بجائے ’بولڈ اداکارہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ہاں اگر اس ماڈل و اداکارہ کی کسی مرد اداکار سے اس کی شان میں کوئی سبکی ہو گئی تو پھر یکدم اسی مادر پدر آزاد عورت کو اسلام کے سارے تقاضے یاد آ جاتے ہیں اور وہ عموماً اپنی کسی ذاتی انا کی توہین کا بدلہ لینے کے لیے مرد کو اسلام کی سولی اور بلی چڑھا دیتی ہے۔ اب وہ اسلامی عزت و غیرت اور ناموس کی پیکر بن جاتی ہے۔ عام طور پر پینٹ اور جینز میں کسے ہوئے کپڑوں کے ساتھ یہ جگہ جگہ تھرکتی عورت تھانے اور عدالتوں میں لمبی چادر اور پورا برقعہ تک پہن کر۔ حیا و ناموس کی پوری پتلی بن کر مرد کے خلاف مقدمہ کے لیے پیش ہو جاتی ہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ عورت کے جو جائز حقوق ہیں ، وہ ہر صورت اسے ملنے چاہئیں۔ اس کے اصل حقوق تو یہ ہیں کہ اس پر اندر اور باہر کی ڈبل ڈیوٹی ختم کی جائے۔ اس کی ڈیوٹی کو آدھا کیا جائے۔ اسے مردوں اور درندوں کے جنگل میں جانے پہ مجبور نہ کیا جائے۔ جہاں اس کے ساتھ آئے دن ’انہونیاں ‘ ہوتی ہیں۔ یہ ’ان ہونیاں ‘ مغرب میں تو عام ہوچکی ہیں۔ وہاں کی عورت یہ آزادی پا کر آج اس بے بسی کی حالت میں ہے کہ اپنے اوپر زیادتی اور ظلم کو وہ ظلم اور زیادتی بھی نہیں کہہ سکتی۔ وہاں ان آزادیوں کے طفیل بغیر نکاح کے اس سے اس کی جوانی تک خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بہانہ یہ کیا جاتا ہے کہ ابھی ہم انڈر سٹینڈنگ پیدا کر رہے ہیں لیکن انڈر سٹینڈنگ تو شاید ہی پیدا ہو، البتہ بچے ضرور پیدا ہو جاتے ہیں جس کی ذمہ داری یہ لفنگا مرد عورت پہ ڈال کے خود کسی نئی لڑکی اور نئی گرل فرینڈ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے یا پھر انڈر سٹینڈنگ ہونے تک لڑکی کی جوانی ختم ہو جاتی ہے تو اس میں شادی کے لیے وہ کشش ہی ختم ہوجاتی ہے اور پھر اس کی ساری عمر اولڈ ہوم کی نذر ہوجاتی ہے۔