پیپلز پارٹی کا عوامی مارچ، خواجہ طارق نوید لون اور نعمان بٹ!!!!
گذشتہ روز نوائے وقت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کی مناسبت سے گوجرانولہ سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خواجہ طارق نوید لون کی طرف سے اشتہار بھی شائع ہوا۔ سیاسی سرگرمیوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کو اشتہار کے ذریعے بھی عوام سے بات چیت کا موقع ملتا ہے۔ نوید لون پرانے جیالے ہیں بلکہ خاندانی جیالے ہیں ان کے والد محمد اسلم لون مرحوم ایم این بھی بنے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر فیڈرل کونسل بھی رہے۔ یقیناً لوگوں نے نوید لون کے اس اشتہار کو معمول کے سیاسی اشتہارات کی طرح ہی دیکھا ہو گا کیونکہ جب بھی بڑی سیاسی جماعتیں لانگ مارچ، عوامی مارچ یا سیاسی سرگرمیاں کرتی ہیں تو مختلف شہروں میں استقبالیہ کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ مقامی قیادت اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے، پارٹی قائدین کا اعتماد حاصل کرنے اور علاقے میں اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ایسے اشتہارات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اپنی جماعت کے پنجاب میں کم بیک کے لیے ناصرف نچلی سطح پر کام کریں بلکہ میڈیا میں بھی ان کی جماعت نظر آئے اور لوگوں کو یاد کروایا جا سکے کہ پاکستان پیپلز پارٹی صرف سندھ کی جماعت نہیں ہے بلکہ اس جماعت کا پنجاب سے بہت گہرا اور مضبوط تعلق رہا ہے۔ اس بات کا ثبوت چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے لاہور میں استقبال اور خطاب کی تصاویر شیئر کیں تو انہوں نے لکھا"لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور آج لاہوریوں نے عوامی مارچ کا فقیدالمثال استقبال کر کے ثابت کر دیا کہ لاہور بھٹو کا تھا، بھٹو کا ہے، اور بھٹو کا رہے گا۔" بلاول بھٹو زرداری کا عوامی مارچ درحقیقت ملک بھر میں جیالوں کو متحرک کرنے کے لیے ہے۔ اس میں ابتدائی طور پر تو انہیں کامیابی ملی ہے چونکہ ایک عرصہ پاکستان پیپلز پارٹی "میثاق جمہوریت" کے نام پر نون لیگ کے ساتھ مل کر سیاست کرتی رہی اور اس سیاسی حکمت عملی کا سارا فائدہ نون لیگ اور سارا نقصان پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا۔ بلاول بھٹو زرداری اس نقصان کے ازالے کے لیے میدان عمل میں ہیں۔ انہیں خواجہ طارق نوید لون جیسے مخلص سیاسی کارکنوں کا ساتھ حاصل ہے۔ کل وہ سارا دن سڑک پر رہے، کام کرتے رہے، کارکنوں کو متحرک کرتے رہے، گوجرانولہ میں عوامی مارچ کا استقبال بھی بہت اچھا ہوا۔ جب میں گوجرانولہ میں عوامی مارچ کا استقبال دیکھ رہا تھا تو مجھے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا گوجرانولہ میں پہلا جلسہ یاد آیا اس جلسے کے لیے پی سی بی گورننگ بورڈ کے سابق رکن نعمان بٹ کی وڈیوز دیکھنے کو ملیں۔اس وقت نعمان بٹ مسلم لیگ نون کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ جلسے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ آج ان دونوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نعمان بٹ اور نوید لون ناصرف بہت اچھے دوست ہیں بلکہ دونوں میں بہت قریبی رشتہ داری بھی ہے اور دونوں ناصرف مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہیں بلکہ دو مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود دونوں میں ناصرف دوستی قائم ہے بلکہ یہ تعلق اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کا تعلق سیاسی وابستگیوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جب کہ دوسری طرف سیاسی کارکن اپنے قائدین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوتے ہیں، اپنی سیاسی جماعتوں کا دفاع کرتے کرتے برسوں پرانے تعلق بھلا دیتے ہیں۔ قارئین کو یہ یاد کروانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اب سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں ہو گی بلکہ اس میں اضافے کا ہی امکان ہے۔ جیسے جیسے عام انتخابات قریب آتے جائیں گے عدم برداشت میں اضافہ ہوتا جائے گا، لوگ درگذر کے بجائے لڑائی مار کٹائی پر اتر آئیں گے۔ ایک دوسرے کو ناصرف برا بھلا کہیں گے بلکہ قطع تعلقی سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ لہٰذا آپ سب کو یہ یاد رکھنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اہم سیاسی شخصیات کی طرح سمجھ بوجھ اور تحمل مزاجی سے کام لیتے ہوئے سیاسی زندگی اور ذاتی زندگی کو الگ الگ رکھیں۔ خود سوچیں کہ ندیم افضل چن کی گذشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی میں واپسی ہوئی ہے اب جن لوگوں نے ان کی محبت میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے لڑائیاں کی تھیں اب وہ ندیم افضل چن کی محبت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھا کر کیسے سیاسی حریفوں کا سامنا کریں گے۔ بہتر یہی ہے کہ میانہ روی اختیار کریں۔ انتہا پسند نہ بنیں اور نہ سیاسی شدت پسندی کی طرف جائیں۔ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائیں اور جلسہ ختم ہونے کے بعد گلے لگائیں بہتر سیاسی زندگی کا اس سے بہتر فارمولا نہیں ہو سکتا۔
آپ کو یہ یاد کروا دوں کہ یہ وہی نعمان بٹ ہیں جنہوں نے دو ہزار انیس میں اس وقت کے چیئرمین پی سی بی احسان مانی اور ان کے امپورٹڈ چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ محکمہ جاتی اور علاقائی کرکٹ کے لیے آواز بلند کی یہ کرکٹ تو نہ بچ سکی لیکن نعمان بٹ نے پاکستان کے ہزاروں کرکٹرز کے بہتر مستقبل کی خاطر آواز بلند کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ مظلوم کرکٹرز کے لیے آواز بلند کرنے کے جرم میں کرکٹ بورڈ نے ان پر تین سال کی پابندی عائد کر دی تھی۔ احسان مانی اور وسیم خان کا سیاسی دور تو ختم ہو چکا اب رمیز راجہ کا دور ہے یہ کب سیاسی رنگ اختیار کرتا ہے اس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔
بہرحال راولپنڈی میں جاری پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ٹیسٹ میچ کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کا روٹ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ روٹ تبدیل ہونے کے باعث شرکاء راولپنڈی میں داخل نہیں ہوں گے۔ اب عوامی مارچ کے شرکا ء لیاقت باغ کے بجائے روات ٹی چوک پر قیام کریں گے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری روات ٹی چوک پر خطاب کریں گے۔ مارچ روات ٹی چوک سے اسلام آباد ایکسپریس وے اور فیض آباد سے ہوتا ہوا ڈی چوک پہنچے گا۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین جاری ٹیسٹ میچ اور اس کی اہمیت کے پیش نظر روٹ میں تبدیلی اچھا فیصلہ ہے۔