علیم خان کی گفتگو کسی اپوزیشن رکن کی بات نہیں ، عوامی نقطہ نظر
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
عبدالعلیم خان کی گفتگو ایک درد دل رکھنے والے سیاسی کارکن اور گھر کے فرد کی گفتگو ہے۔ یہ اپوزیشن کے کسی رکن کی بات چیت نہیں ہے بلکہ یہ عوامی نقطہ نظر ہے، یہ بات چیت پاکستان تحریک انصاف کو درپیش حقیقی مسائل کی ہے۔ انہوں نے مہذب انداز میں حقیقی مسائل کو پاکستان تحریک انصاف کے فیصلہ سازوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ عبدالعلیم خان کا جہانگیر خان ترین سے اظہار یک جہتی اور ان کے ساتھیوں کی مہم کا حصہ بننا یہ ثابت کرتا ہے کہ بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کے ہر دوسرے رکن کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے اور حکمران جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور سب سے متحرک صوبے میں ان کی اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی وزیر اعلیٰ سے خوش نہیں۔ ناصرف ناخوش ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سردار عثمان بزدار صوبے کو بہتر انداز میں چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ پنجاب میں ناکامی کا مطلب سیاسی شعور رکھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں۔ جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اور ان کے ساتھی اپنی جماعت کو بچا پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن انہوں نے ایک مرتبہ واضح الفاظ میں پی ٹی آئی کے فیصلہ سازوں کے سامنے حقیقت بیان کر دی ہے۔ عبدالعلیم خان کی گفتگو کو موجودہ سیاسی صورتحال میں ہر شخص اپنی سیاسی سمجھ بوجھ کے مطابق استعمال کر سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اس وقت اپنی جماعت کے بڑوں کو اصل صورتحال سے آگاہ کر رہے ہیں تو انہیں اس نہج تک کس نے پہنچایا ہے۔ یہ سب لوگ تو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتے، دن رات کام کرتے رہے، انہیں دیوار سے لگانے والوں نے کیا اپنی جماعت اور ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں لوگوں کو ساتھ ملا کر رکھنا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ مخالفوں کے ساتھ چلنا تو دور کی بات پاکستان تحریک انصاف تو اپنے لوگوں کے ساتھ چلنے میں ناکام رہی ہے۔ بہرحال عبد العلیم خان کی گفتگو کو عوامی گفتگو کہا جا سکتا ہے کیونکہ حکمران جماعت کے غلط فیصلوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔