تین سال کے بچوں کو سکول داخل کرانے کے منفی اثرات!
عیشتہ الرّاضیہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا جا رہا ہے والدین میں بچوں کو کم عمری میں ہی سکول داخل کروانے کا رحجان بھی تیزی بڑھتا جا رہا ہے۔
اس بڑھتے رحجان میں پرائیویٹ سکول سسٹم کا بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دو دہائیوں قبل چار سال کے بچے کا تعلیمی سلسلہ نرسری سے شروع کیا جاتا تھا لیکن اب اس میں مزید اختراع پیدا کر کے اس سلسلے کو کے جی 1 سے شروع کیا جا تا ہے، جس میں داخلے کی عمر 3 سال کر دی گئی ہے۔ ذرا سوچیںکے اکثر تین سال تک بچے ٹھیک سے بول بھی نہیں پاتے ، یہ وہ عمر ہوتی ہے جب اسے زیادہ سے زیادہ ماں کی قربت درکار ہوتی ہے۔چونکہ بچے کی اولین درس گاہ ماں کی گود ہے لہذا اگر ماں محض تین سال کے بچے کو خود سے جدا کر کے ایک اجنبی ماحول میں جہاں اس کے لیے سبھی اجنبی ہیں میں زبردستی چھوڑ جائے تو بچے کے ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس عمر میں نہ ہی بچے میں خود اعتمادی کا وہ لیول پیدا ہوگا کہ جس میں بچہ بلا جھجھک کسی غیر انسان کے ساتھ اطمینان محسوس کر سکے۔
کے جی 1 کے نصاب پر بات کریں تو اس میں بچے کو پینسل پکڑنے، رنگ بھرنے، نظم پڑھنے اور غیر نصابی سرگرمیوں کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ یہاں میں اس بات پر زور نہیں دے رہی کہ تدریس کا یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ بلکہ ان امور سے واقعی بچے میں ابتدائی قابلیت پیدا ہوتی ہے ۔ یہ تدریس کی جانب اس کا پہلا قدم جانا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہی تمام امور اگر مائیں بچے کے لیے خود گھر میں رہ کر سیکھائیں تو بچے کے لیے ایک پر اعتماد ماحول میں ماں کے لمس کے ساتھ یہ سب سیکھنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔
پری سکول میں رسمی تعلیم شروع ہونے سے پہلے ہی بچوں کو خواندگی کی بنیادی مہارتیں سکھانا معمول بن گیا ہے۔جب بچے سکول شروع کرتے ہیں تو پڑھنے پر ہمیشہ بڑی توجہ دی جاتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کا ہدف بنایا جاتا ہے کہ تمام بچے یکساں طور پرپڑھنا لکھنا سیکھیں جو کہ بچوں کے ذہن پر زیادہ دباؤ کا باعث بن رہا ہے ۔چونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر بچے کی دماغی صلاحیت دوسرے سے مختلف ہے۔ کچھ بچے اپنی عمر کے لحاظ سے زیادہ ذہین واقع ہوتے ہیں جبکہ کچھ بچوں میں وہ قابلیت اپنی عمر سے چند سال بعد آتی ہے۔
بہت سے ممالک میں رسمی تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے حق میں اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جلد شروع کرنے سے بچوں کو سیکھنے اور سبقت حاصل کرنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے۔
تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ’تعلیمی ہتھیار کی دوڑ‘ شروع ہو جاتی ہے جس کے لیے اپنے بچے کو ابتدائی سبقت دلانے کے لیے چار سال سے بھی کم عمر میں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں ۔والدین کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ فلاں بچہ ہمارے بچے کا ہم عمر ہے اور اس نے سکول جانا بھی شروع کر دیا ہے۔
یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ برطانیہ میں بچوں کا امتحان ان کے سکول کے دوسرے سال (عمر 5-6) میں لیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ پڑھنے کے متوقع معیار تک پہنچ رہے ہیں کہ نہیں۔ اس پر ماہرین کی دو رائے ہے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ ابتدائی درجوں میں اس طرح کے ٹیسٹ سے بچوں کے پڑھنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ کم عمری کے ٹیسٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ان لوگوں کی شناخت میں مدد ملتی ہے جنھیں اضافی مدد کی ضرورت ہے۔
بہرحال بہت سی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدا میں حد سے زیادہ تعلیمی ماحول سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے ۔
دنیا میں بہت سے ممالک کم عمری میں تعلیم کے آغاز کے حق میں نہیں ہیں۔ جرمنی، ایران اور جاپان سمیت بہت سے ممالک میں رسمی تعلیم تقریباً چھ برس کی عمر میں شروع ہوتی ہے۔ فن لینڈ میں، جسے اکثر دنیا کے بہترین تعلیمی نظام والے ملک کے طور پر سراہا جاتا ہے، بچے سات سال کی عمر سے سکول میں داخلہ لیتے ہیں ۔کیمبرج یونیورسٹی کے سنہ 2009 کے جائزے میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ سکول کی رسمی عمر کو چھ سال پر واپس لایا جانا چاہیے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جلدی سیکھنے سے پڑھنے کی صلاحیت بہتر نہیں ہوتی تو پڑھائی جلدی کیوں شروع کی جائے؟ پڑھنے کی چاہ اور قابلیت لوگوں میں منفرد ہوتی ہے اور یہ ایک اہم پہلو ہے۔دوسری طرف، اگر آپ کا بچہ جلدی پڑھنا شروع کر رہا ہے، یا سکول میں داخلے سے پہلے ہی پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے، تو یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن یہ خیال رہے کہ دباؤ کو کم کرنے اور تفریح کے مواقع موجود ہوں۔