جمہوری نظام سیا ستدانوں کے اختلاف کا نشانہ بن چکا
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
جمہوری نظام سیاست دانوں کے باہمی اختلافات کا نشانہ بن چکا ہے۔ مسلم لیگ ق کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی ہر وقت عدم استحکام کا سامنا رہا، ہر دوسرے دن حکومت کے جانے کی خبریں سامنے آتی رہیں، سیاست دان اہم معاملات میں بات چیت کے ذریعے مسائل حل اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ قومی سلامتی کے معاملات میں بھی سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت میں بھی یہی طرز سیاست غالب رہا۔ بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے سرکردہ رہنما ایک دوسرے پر الزامات لگاتے اور برا بھلا کہتے نظر آئے، قومی مفاد میں تعاون اور اتفاق رائے کے بجائے رکاوٹیں اور سازشیں ہوتی رہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی حالات کچھ ایسے ہی رہے ہیں۔ تین بڑی سیاسی جماعتیں مسلسل سیاسی ماحول کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔ ووٹر اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے لیے محنت کرتے ہیں جبکہ منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں جانے کے بعد ذاتی مسائل حل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کا وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے لیے مشکلات کھڑی کرنے میں گذرتا ہے۔ مسلسل بیس سال تک بھی کوئی نظام اگر عوام کے حقیقی مسائل کی نشاندہی اور انہیں حل کرنے میں کامیاب نہ ہو تو پھر سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا نظام میں خرابی ہے یا پھر اسے چلانے والوں میں کوئی مسئلہ ہے۔ آج کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں آئندہ کئی روز تک سیاسی حالات یہی رہیں گے۔ اس دوران سٹاک ایکسچینج کا کیا حال ہوتا ہے، عوامی مسائل میں کتنا اضافہ ہوتا ہے اس سے کسی کو غرض نہیں۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے جب حکومت عدم اعتماد کو ناکام بنانے اور اپوزیشن تحریک کی کامیابی میں لگی رہے گی تو ماہ مبارک کی تیاریاں متاثر ہوں گی اور رمضان المبارک کے دوران عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔