حکومت کی گھوٹکی سے کراچی تک حقوق ریلی
تحریر: سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
آج کل سندھ کا سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے۔ صوبہ سندھ اس وقت ملکی سیاست کو مرکز بنا ہوا ہے، سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کے خلاف کراچی سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ گئی، وہیں حکومت نے بھی گھوٹکی سے کراچی تک حقوق ریلی نکالی۔ دوسری طرف تمام اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں شمولیت اختیار کرکے اپنے ووٹرز کو مطمئن کر رہے ہیں تو دوسری جانب وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو منانے میں مصروف ہے۔ ان تمام سیاسی پاور شو کا چاہے نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن عوام کو ایک فائدہ ضرور پہنچا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد کی خبروں سے وفاقی حکومت کو ایک قدم پیچھے ہونا پڑا۔ وہ حکومت جو پہلے آئی ایم ایف کی ایما پر بغیر سوچے سمجھے ان کی شرائط پر آنکھ بند کرکے عمل کرتی تھی اسے بلآخر عوام کا خیال آہی گیا۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کو نکلے ابھی 48 گھنٹے پورے ہوئے تھے کہ حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے لیٹر کی کمی کرنی پڑی اور ساتھ ہی بجلی کے ٹیرف میں بھی 5 روپے یونٹ کی چھوٹ دینی پڑی۔ گو حکومت اس فیصلے کو عوام کیلئے تاریخی ریلیف کا نام دے کر بھرپور کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تاریخی ریلیف پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کسی ملک میں ایک نان بائی ہوتا ہے جو 5 روپے کی روٹی فروخت کرتا ہے ، اس کو خیال آتا ہے کہ کیوں نہ روٹی 10 روپے کی بیچوں اور زیادہ منافع کماؤں اس پر اپنے دوستوں سے مشورہ کرتا ہے تو دوست کہتے ہیں یہ اگر تم نے روٹی کی قیمت بڑھائی تو لوگ بہت شور مچائیں گے ، اس کی اجازت تو صرف بادشاہ ہی دے سکتا ہے۔ بلآخر وہ نان بائی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے کہ اور اپنا مدعا بتاتا ہے۔ بادشاہ اس کی بات سن کر بڑے اطمینان سے جواب دیتا ہے کہ جاؤ روٹی کی قیمت 30 روپے کردو۔ اس پر نان بائی بہت حیران پریشان ہوتا ہے کہتا ہے بادشاہ سلامت ایسے تو لوگ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ بادشاہ کہتا ہے جیسا میں کہہ رہا ہوں وہی کرو، بادشاہ میں ہوں یا تم۔ آخر کار وہ نان بائی کیا کرتا ، اس نے روٹی کی قیمت 30 روپے کردی۔ اس پر شہر میں کہرام مچ جاتا ہے کہ نان بائی نے روٹی کی قیمت 30 روپے کردی۔ لوگ شکایت لے کر بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔ بادشاہ شکایت سن کر طیش میں آجاتا ہے اور نان بائی کو حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے۔ نان بائی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو بادشاہ شدید برہمی کا اظہار کرتا ہے کہ تمہاری جرت کیسے ہوئی میری سلطنت میں 30 روپے کی روٹی فروخت کرنے کی۔ تمہیں لوگوں کا خیال نہیں، جاؤ میرا حکم ہے کہ تم آج سے آدھی قیمت میں روٹی بیچو گے۔ یہ فیصلہ سن کر عوام خوش ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد سے نان بائی 15 روپے کی روٹی فروخت کرنے لگتا ہے۔ یوں عوام بھی خوش، نان بائی بھی خوش اور بادشاہ سلامت کا بول بالا۔ ایسی ہی ہماری حکومت نے عوام کو تاریخی ریلیف دیا۔ کہ پہلے پیٹرول 108 روپے سے بڑھا کر 160 روپے لیٹر پر لے گئے اور پھر اس میں 10 روپے کم کرکے عوام کو تاریخی ریلیف فراہم کر دیا گیا۔ بجلی کے ٹیرف میں 30 روپے اضافہ کرکے 5 روپے کم کردیا۔ اس طرح عوام بھی خوش، نان بائی بھی خوش اور بادشاہ سلامت کا بول بالا۔
بہرحال آج کل تو حکومت کو اس کے اتحادی بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں، مسلم لیگ ق کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی کھانے کی دعوت کی خبریں گردش کرنے لگی حکومت بے چین ہوگئی اور وزیر اعظم خود چل کر چوہدری برادران سے ملنے گئے اور اپنے اتحاد کو مضبوط کیا۔ اسی طرح ایک اور اتحادی ایم کیو ایم نے بھی حکومت کو تھوڑی سی آنکھیں دکھائیں تو وزیر اعظم کو مجبوراً اب ان سے بھی ملنے جانا پڑ گیا۔ ظاہر ہے یہ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کا نتیجہ ہی ہے جو حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے متحرک نظرآرہی ہے۔ ورنہ گزشتہ تین سال میں ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی۔ لوگ دہائیاں دیتے تھے لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ تجزیہ نگار یہی کہتے تھے کہ حکومت کو تین سال میں کوئی اپوزیشن نہیں ملی۔ اب جب الیکشن کا سال قریب آرہا ہے تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی کچھ ہوش کے ناخن لئے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے میدان میں نکلی۔ اگر یہی کام وہ پہلے کر لیتے تو عوام کا کتنا بھلا ہوجاتا ، عوام کو اتنی مہنگائی کی چکی میں پسنے سے بچالیا جاتا۔ تاہم سیاست میں خاص طور پر پاکستان کی سیاست میں ذاتی مفاد اولین ترجیح رکھتا ہے۔ لیکن چلیں دیر آئے درست آئے، کم سے کم اب عوام کو تھوڑا بہت ریلیف تو میسر آیا۔ عوام کیلئے چاہے لانگ مارچ ہو یا حقوق مارچ، دونوں سے بس یہی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ان کے دو وقت کی روٹی کا راستہ ہموار کریں اور انہیں سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیں۔عوام ریاست مدینہ اور روٹی کپڑا مکان کے نعروں سے تنگ آچکے ہیں، کیونکہ دونوں نے ہی عوام کو صرف وعدوں ، آسروں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پھر ملک آئی ایم ایف کی غلامی میں الگ چلا گیا۔ سوچنا یہ ہے کہ اب عوام کو پہلے کی طرح سہولیات کیسے ملیں گی اور ملک دوبارہ آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نکلے گا۔ کیا یہ حکومت یا آنے والی مزید حکومتیں عوام کو اسی طرح اپنے مقاصد کیلئے استعمال کریں گی یا پھر واقعی کوئی ان کی بھی داد رسی کرے گا اور پاکستان کو واقعی ایک فلاحی ریاست بنائے گا۔