برطانیہ اور پاکستان کی پولیس کا تقابلی جائزہ
ہمارے معاشرے میں پولیس کی اخلاقیات کو اس کی خراب کارکردگی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی برطانیہ کی پولیس کی اخلاقیات کی مثال دیکر اسکی تعریف و توصیف بھی کی جاتی ہے۔ برطانیہ کی پولیس جس معاشرے میں اپنے پیشہ ورانہ امور انجام دے رہی ہے اس کا نظام اور ماحول پاکستان کے معاشرے کے نظام اور ماحول سے بہت مختلف ہے۔ برطانیہ میں پاکستان کے برعکس سیاستدان پولیس کے محکمہ میں مداخلت کے مجاز نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو اس بنیاد پر ووٹ مل سکتے ہیں۔ اس ملک میں وکلا، صحافیوں اور تاجروں کی کوئی تنظیم پولیس کو اس طرح زیر اثر نہیں کر سکتی جس طرح پاکستان میں کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں سیکورٹی کے کسی بھی سولین اور فوجی ادارہ کو پولیس سے زیادہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ یہاں ذات اور برادری کا نظام نہ ہونے کے باعث پولیس کو چھاپہ کے دوران اجتماعی نوعیت کی مزاحمت کا سامنا شاذونادر ہی کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ کے میڈیا میں پولیس کا تمسخر اڑانے اور اس کے خلاف جگت بازی سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا میڈیا اس ضمن میں غیر ذمہ دار ہے۔ برطانیہ کے علاقہ انگلینڈ کے ہر شہر کی اپنی پولیس ہے جس کے سربراہ کوچیف کانسٹیبل کہا جاتا ہے۔ یہاں لندن شہر میں براجمان کوئی پولیس افسر مانچسٹر شہر کے جرائم پر جوابدہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں پولیس میں طبقاتی نظام نہیں ہے۔ پولیس میں بھرتی صرف کانسٹیبل کی سطح پر ہوتی ہے اور پھر یہ ہی کانسٹیبل ترقی کر کے چیف کانسٹیبل تعینات ہو سکتا ہے۔ پولیس کے کانسٹیبل کی تربیت دو سال کی جاتی ہے (پولیس کاری میں ڈگری کی صورت تربیت کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے)۔ پاکستان میں پولیس کی تربیت ایک سال یا اس سے کم عرصہ پر محیط ہوتی ہے۔ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی سے پولیس کاری میں ڈگری کا حصول ممکن نہیں ہے۔ برطانیہ میں پولیس کے محکمہ کو مختلف مخصوص شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو پولیس اہلکار شعبہ آپریشن میں تعینات ہو اس سے شعبہ انویسٹی گیشن کا کام نہیں لیا جاتا۔ پولیس کے جس افسر کی مہارت قتل اور اموات کی تفتیش ہو وہ گاڑیوں کی چوری کی تفتیش نہیں کرتا۔برطانیہ کی پولیس کو کم ہی مشتعل مظاہرین کو قابو کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ میں شہریوں کا احتجاج عمومی طور پر مہذب انداز میں ہوتا ہے اور احتجاج کے دوران سڑک بند کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ پاکستان کی پولیس کی طرح برطانیہ کی پولیس کے پاس بڑے پیمانے پر زمین اور جائیداد کے سول کیسز نہیں آتے۔ برطانیہ میں پاکستان کی طرح بجلی کی چوری بھی عام نہیں۔ بہار کے موسم میں برطانیہ کی پولیس کی پتنگ بازی کے انسداد کے لیے ملک کے طول و عرض میں دوڑ بھی نہیں لگتی۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ برطانیہ کے کسی ہسپتال میں کسی مریض کی رحلت کے بعد توڑ پھوڑ پر پولیس کو طلب کیا گیا ہو۔ پاکستان کی پولیس کے برعکس برطانیہ کی پولیس کو کسی سیاستدان، جج، سرکاری افسر یا سفارت کار کی سیکورٹی کیلئے پروٹوکول نہیں دینا پڑتا۔ اس کی وجوہات مؤثر سراغ رسانی ،تفتیش میں مہارت اور پولیسنگ کمیونٹی ہے۔جرائم کی تفتیش کیلئے برطانیہ میں جو قوانین نافذ ہیں وہ 1984ء میں مرتب کیے گئے ہیں جب کہ پاکستان کی پولیس جس ضابطۂ فوجداری کے تحت کام کر رہی ہے وہ 1898ء کا ہے۔ برطانیہ کے علاقہ انگلینڈ کی پولیس کے پیشہ ورانہ امور کیلئے 1996ء میں ایک ایکٹ پیش کیا گیا تھا جب کہ پاکستان کی پولیس 1934ء کے رولز کے تحت کام کر رہی ہے۔ برطانیہ کی پولیس کو تھانہ کی سطح پر اخراجات فراہم کیے جاتے ہیں نہ کہ پاکستان کی طرح تھانہ کی پولیس کو اخراجات ’مینیج‘ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ان کے تھانہ جات میں پاکستان کے تھانہ جات کی نسبت زیادہ نفری دستیاب ہوتی ہے۔ جرائم کی تفتیش کے لیے برطانیہ میں ہر علاقہ میں کیمرے نصب ہیں اور پولیس کی ان تک رسائی ہے۔ پاکستان کی پولیس اکثر جرائم کی تفتیش کے لیے دوسرے اداروں کی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے جب کہ برطانیہ میں پولیس اس معاملہ میں خود ایڈوانس ہے۔پاکستان میں پولیس ملازمین کی تنخواہ اور مراعات کم ہیں۔ اکثر پاکستانی پولیس ملازمین سڑک پر لفٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔ برطانیہ میں پولیس ملازمین اچھی تنخواہ اور مراعات کے باعث اپنی عزت نفس پرسمجھوتہ نہیں کرتے۔ برطانیہ کی پولیس طویل ڈیوٹی نہیں کرتی اور ان کے آرام کے لیے کم از کم دو دن مختص کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں تھانہ کے ملازمین کی ڈیوٹی کم از کم 12 گھنٹے ہوتی ہے اور ہفتے میں ایک دن چھٹی مل جائے تو اس کو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کی پولیس کو اگر پاکستان میں تعینات کر دیا جائے تو وہ ہمارے نظام اور ماحول میں کولیپس کرجائے گی۔