عمران گھٹیا سیاست پر اتر آئے ، شہباز شریف: وہ کروں گا انکی نسلیں یاد رکھیں گی: بلاول
اسلام آباد، لاہور (نمائندہ خصوصی، اپنے نامہ نگار سے) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے جو سمجھتے ہیں ہم ڈر جائیں گے وہ جان لیں ہمارے اندر شہیدوں کا خون ہے، پیپلز پارٹی ہر دور میں ہر ظالم سے ٹکرائی ہے، ہم نے کبھی بندوق استعمال نہیں کی مگر ہم بندوق استعمال کرنا جانتے ہیں، میں پرامن ادمی ہوں، پرامن رہوں گا۔ عوام نے اس حکومت کو مسترد کردیا ہے، ہم جمہوری انداز میں اس حکومت کو گھر بھیجیں گے، ہم پْراعتماد ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی اور تحریک عدم اعتماد کے بعد صاف، شفاف الیکشن پر اتفاق ہے۔ حکومت ہر معاملے پر ناکام ہوگئی ہے، پاکستان کے عوام نے سلیکٹڈ وزیر اعظم کو مسترد کردیا، عوام جہموریت کے ساتھ ہیں اور وہ صاف و شفاف انتخابات چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنا منتخب نمائندہ چن سکے جو ان کے مسائل حل کرے۔ وزیراعظم قوم کے سامنے کھڑا ہوکے صدر زرداری کو بندوق کی دھمکی دیتا ہے، زرداری کو دھمکی بھی برداشت سے باہر ہے۔ وزیراعظم زیادہ گالیاں دیں گے، گالیاں دینے سے ان کی کرسی نہیں بچے گی، کرسی خطرے میں دیکھ کر وزیراعظم مزید گالیاں دیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز پریس کانفرنس میںکیا۔ بلاول بھٹو زراداری نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا، اب جھوٹ نہیں چلے گا، سلیکٹڈ کے خلاف پیپلز پارٹی نے پہلے دن سے مقابلہ کیا، آپ ہمیں زندگی اور موت کی دھمکی دیں گے، یہ مذاق نہیں۔ عدام اعتماد کی تحریک کے حوالے سے حکومت کا مؤقف مضحکہ خیز ہے، یہ چلے گا نہیں، ایسا نہیں ہوگا جیسا چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران ہوا، سینٹ الیکشن کی طرز پر دھاندلی کرکے وزیراعظم بچ نہیں سکتے، حکومت گھبرائی ہوئی ہے اس لیے ایسی تجاویز سامنے آرہی ہیں لیکن اس طرح کے ہتھکنڈے چلنے والے نہیں۔ عوام نے پیپلز پارٹی کے عوامی حقوق مارچ میں شرکت کرکے اپنا کام کردیا، اب ارکان پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دیں۔ عوام نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے، اب ہم عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اوپر لگے اس داغ کو دھوئیں اور عوام کی امنگوں اور امیدوں پر پورا اترتے ہوئے اس سلیکٹڈ وزیر اعظم کو گھر بھیجیں۔ ہم جمہوریت کے حامی ہیں، ہم جمہوری طریقے سے اس وزیراعظم کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں، اگر ہم اپنے عوامی مارچ کے دوران مطالبہ کرتے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں ورنہ یہ دھرنا جاری رہے گا تو آج بھی یہ دھرنا جاری ہوتا مگر ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ہم جمہوری سوچ رکھتے ہیں، ہم جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم پرامن ہیں، پرامن رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر آپ ہمیں زندگی اور موت کی دھمکی دیں گے تو ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔ ہمارے خاندان کے کئی افراد کو شہید کیا گیا، اب بہت ہوگیا، اہم ہم ڈرنے والے نہیں، اب ہم ایسے حملے برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا اگر ہمارے اہل خانہ کے خلاف ایسا کوئی اقدام کیا گیا تو ہم ایسا ردعمل دیں گے جو ایسے عناصر کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی، ہم نے بندوق استعمال نہیں کی لیکن بندوق استعمال کرنا جانتے ہیں، ہم پرامن ہیں اور پرامن رہیں گے۔ میں نے بہت صبر سے کام لیا ہے کیونکہ میں میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں۔ عمران خان نے زرداری کو دھمکی دی، جب بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اس وقت میں بچہ تھا، اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں مخالفین کو کہتا ہوں کہ ہم پرامن سیاست کر رہے ہیں، آپ بھی سیاست کریں لیکن اگر آپ ہمیں زندگی اور موت کی دھمکی دیں گے تو پھر اپ کو اس کے نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ پاکستان ایک جدید ریاست ہے، ہم 2022 میں جی رہے ہیں، ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی آواز اٹھائیں، بات کریں، جمہوری جدوجہد کریں، ہمیں اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا جمہوری حق دیا جائے گا، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حکمران پریشانی کا شکار ہیں تبھی وہ اس طرح کے دھمکی آمیز بیانات دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ پیغام اس لیے دیا گیا کہ کیونکہ ہم ملک میں جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں۔ عمران خان نے ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہے تو آج ہی کرلیں، کل انہیں ہمارے خلاف انتقامی کارروائی کا موقع نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ کل ہم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آپ کو گھر بھیجیں گے، پھر صاف شفاف الیکشن کے ذریعے ایک منتخب حکومت آئے گی۔ پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے اس حکومت کو سلیکٹڈ کہا، ہم نے ان کی عوام دشمن پالیسیوں کو مسترد کیا، ہم نے پی ٹی آئی کے آئی ایم ایف عوام دشمن معاہدے کو پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ قرار دیکر اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا۔ پیپلزپارٹی نے اپوزیشن کو حکومت کے خلاف متحد کیا، ہم نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، آپ کو قومی اسمبلی میں شکست دی اور آپ کو عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا، آئندہ بھی جب کوئی سلیکٹڈ آئے گا تو ہماری جماعت اس کے خلاف کھڑی ہوگی۔ زرداری پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے، ان الزامات کا مقصد یہ تھا کہ پیپلزہارٹی کو توڑا جائے، ان کو تکلیف اسی بات تھی کہ پی پی کو کمزور کرنے کی تمام کوششوں کے باجود آپ ہماری جماعت کو کمزور نہیں کرسکے۔ زرداری کے خلاف کرپشن کے الزاماات عدالتوں میں غلط ثابت ہوئے، سابق صدر تمام الزامات میں عدالتوں سے بری ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کی کرپشن الیکشن کمیشن میں پکڑی گئی، فارن فنڈنگ کیس میں ثابت ہوگیا کہ انہوں نے بھارت اور اسرائیل سے فنڈنگ لی، عمران خان نے اپنی ماں کے نام پر ہسپتال بنا کر اس کے فنڈز میں کرپشن کرکے اپنا کچن چلایا۔ وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ان کو شرم آنی چاہیے، وہ امریکی عدالت سے سزا یافتہ ہیں، ان کو امریکہ کی عدالت نے سزا سنائی، کون اس بات پر یقین کرے گا کہ ان کی بہن نے سلائی مشینیں بیچ بیچ کر اتنے زیادہ پیسے بنائے۔ خاتون اول کا بہت احترام کرتا ہوں، میں نے کبھی خاتون اول کے خلاف غلط زبان استعمال نہیں کی، میں وزیراعظم سے کہتا ہوں کہ وہ خاتون اول سے اپنے لیے دعا کرائیں، عمران خان نیاری کے خلاف کرپشن کے خوفناک کیسز بننے والے ہیں، اپنے خلاف بننے والے مقدمات سے بچنے کے لیے عمران نیازی خاتون اول سے دعا کرائیں۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں کوئی تقرر و تبادلہ نہیں ہوتا جب تک کہ خاتون اول کو رشوت نہیں دی جاتی، خاتون اول کے خلاف کرپشن کی کہانیوں اور کرپشن کے الزامات کے خلاف آپ کیا کہیں گے۔ عمران خان نے فضل الرحمن کے خلاف انتہائی غلط زبان استعمال کی، آپ کون ہوتے ہو کہ مولانا فضل الرحمن کو گالی دو، ان کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرو، گالی دینا ہمیں بھی آتی ہے مگر ہم جمہوری انداز میں اس سلیکٹڈ کا جواب دینا چاہتے ہیں، ان کا پتا نہیں کہ وہ کون ہیں مگر میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا بیٹا ہوں، ہم جمہوری انداز میں جواب دیں گے، ہم پراعتماد ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن پر اتفاق ہے۔ ہماری اس حکومت اور وزیراعظم سے ذاتی لڑائی نہیں، اگر عمران خان صاف شفاف الیکشن کے ذریعے جیت کر آئیں تو ہم انہیں سلیکٹڈ نہیں کہیں گے، کل ہم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آپ کو گھر بھیجیں گے، پھر صاف شفاف الیکشن کے ذریعے ایک منتخب حکومت آئے گی۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اتحادیوں سے رابطوں کے متعلق سوال کے جواب میں بلاول نے کہا ہماری خواہش ہے کہ حکومت کے اتحادی تحریک کی کامیابی کے لیے ہمارا ساتھ دیں، اتحادیوں کی جانب سے ہمارا ساتھ دینے کا بہت مثبت پیغام جائے گا۔ ندیم افضل چن سارے پاکستان میں ایک، فواد ہر بازار میں دستیاب ہے۔ عمران خان کے باپ اکرام اللہ نیازی کو کرپشن کرنے پر قائد عوام نے نوکری سے نکالا تھا۔ اب عمران خان فارن فنڈنگ کیس کا سامنا کر رہا ہے۔ عمران نے اپنی ماں کے نام پر ہسپتال بنا کر اور غریب لوگوں سے چندہ لے کر اپنے گھر کا کچن چلایا ہے۔ عمران کی ہمشیرہ علیمہ خان کرپشن میں ملوث ہیں اور سلائی مشین کے نام پر اس نے اربوں کی کرپشن کی ہے۔ اب پنجاب کی بیوروکریسی خاتون اول کی کرپشن کی کہانیاں سنا رہی ہے۔ عمران خان کو بھی دعا کرنی چاہیے کہ اگلی حکومت صدر زداری کی ہو کیونکہ اگر شہباز شریف آئے تو انہوں نے بہت مضبوط وزیر داخلہ لگانا ہے۔ عوامی مارچ کے دباؤ میں آکر عمران خان نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کیں۔ جب ہم لانگ مارچ لے کر جنوبی پنجاب پہنچے تو ہم نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تو عمران نے بھی وہی بات کرنا شروع کر دی۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا تعلق ہے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار اچھا نہیں رہا۔ ہمیں 2018ء کے نتائج پر بھی تحفظات تھے۔ اب یہ عدم اعتماد اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک ٹیسٹ ہے اور ہم عدم اعتماد کے دوران ہر ادارے کے کردار پر نظر رکھیں گے۔ ہم انتخابی اصلاحات کے بعد جلد انتخابات چاہتے ہیں تاکہ جو نئی حکومت آئے وہ پورے ملک کو بحرانوں سے نکالے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیراعظم سامنے آکر مقابلہ کرو اوچھے ہتھکنڈے مت استعمال کرو، ہم تمہارے فسطائی ہتھکنڈوں کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اس کا مقابلہ بھی کرتے رہے ہیں، عمران خان جس طرح کی زبان استعمال کررہے ہیں ان کے الفاظ کو زبان پر نہیں لایا جاسکتا، عمران خان جہاں جارہے ہیں گندگی کے ڈھیر چھوڑ کرجارہے ہیں انہیں کون صاف کرے گا، وہ سستی اور گھٹیا سیاست کررہے ہیں۔ شہباز شریف نے لاہور میں سپیشل سنٹرل عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میںکہا کہ عمران خان خارجہ پالیسی اور نازک معاملات پر غیر محتاط بیانات دے کر ملک اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہا ہے، ہم جیلوں میں بھی گئے ہیں اور اب بھی تمہارے ہر اوچھے اقدام کا مل کر مقابلہ کرینگے اور ناکام بنائیں گے۔ میں عمران خان کے بیانات نہیں پڑھتا، نہیں چھوڑوں گا اور چور و ڈاکو کی رٹ وہ شخص لگا رہا ہے جس کی عقل مائوف ہو چکی ہے، عمران خان کو اپنا انجام نظر آ رہا ہے اور وہ خوفزدہ ہو چکا ہے، اس لئے دھمکیوں اور بازاری زبان پر اتر آیا ہے۔ علاوہ ازیں شہبازشریف نے بجلی، گھی کی قیمتوں میں اضافے کو عمران کا ایک اور یوٹرن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران نیازی نے اپنی روایت برقرار رکھی ہے۔ بجلی کی قیمت میں 5.94 روپے یونٹ ماہانہ اضافہ عوام کیخلاف غیرملکی سازش ہے جو پی ٹی آئی حکومت نے کی ہے۔ اضافی بوجھ مہنگائی سے تباہ حال عوام پر ڈالنا ظلم، زیادتی اور سفاکی کی انتہا ہے۔ یہ ہے وہ ظلم ہے جسے روکنے کیلئے تحریک عدم اعتماد لاتے ہیں۔ عوام دشمن، جھوٹی حکومت سے نجات ہی قوم کو مہنگائی کے ظلم سے نجات دلائے گی، آئی ایم ایف کو پاکستان کے معاشی مفادات کے ہاتھ کاٹ کردے دیئے۔ بجلی، گھی کی قیمتوں میں اضافے سے عوامی ریلیف کے جھوٹ کا پول کھل چکا ہے۔ گھی کی فی کلو قیمت میں 15 روپے، خوردنی تیل کی فی لٹر 15 روپے ریلیف پیکج کا منہ چڑا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ خوردنی تیل 75 روپے لٹر گھی کی فی کلو قیمت 66 روپے تک اضافہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے۔ بجٹ خسارہ ریکارڈ 4.3 ٹریلین سے اوپر کی ہولناک سطح پر پہنچ گیا ہے، یہ معاشی تباہی کا کھلا ثبوت ہے۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ ریونیو اور قومی آمدن میں اضافے کے حکومتی دعووں کو جھوٹ ثابت کررہا ہے۔ ادھر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ تہمت سے سیاست نہیں کی جاتی، حقائق سامنے لائیں۔ میڈیا سے گفتگو میں فضل الرحمن نے عمران خان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ دھمکیاں مت دیں، ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ پی ٹی آئی کے لوگ بھی عدم اعتماد میں ہمارے ساتھ ہوں گے، وقت گزر چکا ہے آپ بے نقاب ہوچکے ہیں۔ الیکشن کمشن فارن فنڈنگ پر فیصلے میں کیوں تاخیر کر رہا ہے؟۔ ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی رویوں سے بات کرتے ہیں، تہمت لگا کر سیاست نہیں کی جاتی۔ مقابلہ کرنا ہے تو میدان میں آؤ، میرے کردار سے اپنے کردار، میرے والد کے کردار سے اپنے والد کے کردار کا مقابلہ کرو، پاکستانی قوم تمہیں پہچان چکی ہے۔فضل الرحمن نے کہا عمران خان نے جب ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو کہا کہ میں دوسرا ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں، کپتان صاحب کہتے ہیں کہ میں کھلاڑی ہوں، مجھے کائونٹر کرنا آتا ہے۔ انہیں امریکہ، اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ ہوئی، ان کا انجام افغانستان کے اشرف غنی سے بھی برا ہو گا۔ ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر آپ نے قانون سازی کی ہے۔ ان لوگوں نے سی پیک کو برباد کر دیا، یہ امریکی ایجنڈا تھا، آپ نے بیرونی حکم پر پاکستان میں بجٹ بنایا۔