عدم اعتماد کے بعد کا سال فیصلہ کرے گا ملک کیسے آگے بڑھے گا
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
تحریک عدم اعتماد کے بعد کا ایک سال یہ فیصلہ کرے گا کہ ملک کیسے آگے بڑھے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں نظام بھی خطرے میں ہے۔ چونکہ انیس سو پچاسی سے آج تک پارلیمانی نظام حکومت میں جس کارکردگی کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں نے کیا ہے اس کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا، یہ نظام بہتر قیادت کو سامنے لانے میں بھی ناکام رہا ہے۔ اب سیاست دانوں نے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم ختم کرنی ہے یا پھر ملک کو مزید کمزور کرنا ہے، یہ فیصلہ بھی سیاست دانوں نے ہی کرنا ہے کہ صدارتی نظام کی طرف جانا ہے یا ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے والے پارلیمانی نظام کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کی وجہ بنتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ بننے والے ہی ملک کی خراب معیشت، غربت اور بے روزگاری کے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی کھلاڑی انتظار میں ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کون سی ٹیم میں شامل ہونا بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ ان حالات میں ترقی کیسے ممکن ہے۔ مرکز اور پنجاب میں بھی کشمکش جاری ہے، پنجاب ایسا خربوزہ بنا ہوا ہے کہ چھری خربوزے پر گرے یا پھر خربوزہ چھری پر گر جائے دونوں صورتوں میں خربوزہ کٹ کر ہی رہتا ہے ان دنوں پنجاب بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہے۔ قربانی ہونے کے امکانات تو ہیں شاید مناسب وقت کا انتظار ہے۔ تاریخی اعتبار سے پنجاب کا کردار بڑے بھائی کا ہے اور بڑے بھائی نے ہمیشہ قربانی دی ہے۔ آلودہ سیاسی صورتحال میں عام آدمی کے مسائل مکمل طور پر نظر انداز ہوں گے۔ مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ جنہوں نے لوگوں کے لیے کام کرنا ہے وہ اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ان حالات میں عام آدمی پر توجہ کون دے۔ غریبوں کو تو اچھے بھلے وقت میں کوئی نہیں پوچھتا ان دنوں جب حکمران مکمل طور پر ذاتی مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں وہاں عام ستانوے فیصد پر توجہ دینے کے لیے باہر سے تو کوئی نہیں آئے گا۔