عورت مارچ اور اسلام
پروفیسر ہٹی نے جب اسلام اور دیگر مذاہب کا جائزہ لیا تو اس نے اپنی کتاب میں برملا لکھا کہ اسلام کے آنے سے قبل یورپ گھٹا ٹوپ اندھیرے میںتھا۔اسلام کی کرنوں سے پورا یورپ جگمگا اٹھا۔ اسلام نے زندگی کے ہرشعبہ کو انسانیت کے معراج تک پہنچا دیا۔ دوسرے یہ کہ ہر ایک کے حقوق و فرائض متعین کرکے ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جہاںکسی پر ظلم وجور نہ ہو ۔میثاق مدینہ اسکی بہترین مثال ہے۔ اس دور کے کمزور طبقات کو حقوق دے کر عزت کے بلند ترین مقام پر فائز کیا گیا ۔اسلام سے قبل عورت کمتر مخلوق سمجھی جاتی تھی ازمنہ قدیم کیا بدھ مت اور جین مت کی روایتوں میں عورت جنسی تسکین کا زریعہ اور ناقابل اعتبار سمجھی جاتی تھی ۔ہندو مذہب میں بھی عورت کو وہ مقام حاصل نہ تھا جو مذہب اسلام نے عورت کو دیا اور اسے ماں بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے عزت اور مرتبہ دیا ۔خطبہ حجتہ الوداع میں بیویوں کے معاملے میں حسن سلوک پر زوردیا کہ تمھارے نکاح میں آنے کے بعد اپنے نفس کی مالک نہیں۔ خطبہ حجتہ الوداع میں ہی ب بے حیائی اور عریانیت پر کاری ضرب لگائی اورفرمایاگیاکہ عورتوں کا تم پر حق یہ ہے کہ وہ تمھارے بستر پر کسی اور کو نہ آنے دیں۔ معاشرتی نظام کی بنیادیں اسی وقت مضبوط ہوتی ہیں جب کمزور طبقات کو عزت اور احترام ملے ۔ہمارا معاشرہ ہندو تہذیب کے ساتھ پروان چڑھا اور اس مذہب سے مستعار لی گئی باتوں میں عورت کا استحصال بھی شامل ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں ناک کان بال کاٹنے کے واقعات عام ہیں۔ کاروکاری ' قرآن مجید سے شادی ، چھوٹی عمر میں شادی، معمولی رنجشوں پر عورت کا قتل اورزدوکوب عام سی بات ہے۔ آج بھی کچھ علاقوں میں لڑکی کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے ۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بیٹی اور بیٹے کی تربیت میں تفاوت موجود ہے برابری کا سلوک نہ ہونا ،چولہا پھٹنے کے واقعات ،عورت کو ہراساں کئے جانے کے واقعات، ریپ اور اجتماعی زیادتی جیسے واقعات نے عورت کے تحفظ اور آزادی پر سوال اٹھا دیا ہے ۔ عورت کے جسمانی اور روحانی تحفظ کے لئے اگرچہ قوانین موجودہیں لیکن سزاؤں پرعمل درآمد اور نفاذ کاہمیشہ ہی فقدان رہا ہے جسکی وجہ سے جرائم میں اضافہ یقینی بن جاتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عورت مارچ کیا ان مسائل کو لے کر چلتا ہے جس سے آج کی عورت دوچار ہے ۔فحاشی اور عریانیت کی مذہب اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ بقول اقبال
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظرموت
یورپ کے نظام اور ہمارے نظام میں زمین آسمان کافرق ہے۔ ہمارا نظام اسلام کی اساس میں گندھا ہوا ہے جہاں والد کو عورت کے تحفط کا علمبردار سمجھا جاتا ہے وہاں شوہرقوام کی حیثیت سے اس کے مالی اورجسمانی تحفظ کاذمے دار ہے۔ مغربی معاشرے کی طرح ہمارے معاشر ے میں عورت مادرپدرآزاد نہیں ہے ۔ خطبہ حجتہ الوداع میں مردوں کو عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیاگیا ہے تاکہ مرد ا س کو وہ حقوق دے جو اسلام نے دئیے ۔ عورت قابل تکریم ہے عورت نے جہاں میدان جنگ میں اپنی خدمات سے اپنا آپ منوایا بسااوقت وہ ذمہ داریاں بھی اٹھائیں جومرد اٹھاتا ہے ۔حقوق نسواں کے لئے سب سے ضروری آواز وہ ہے جو اسے اسلام کے تقاضوں کے مطابق حقوق کا مطالبہ کرتی ہے۔بے حیائی اور عریانیت کا پرچار کرنیوالی آوازیں بہت جلدی دم توڑ دیتی ہیں ۔اس ضمن میں قانون نافذ کرنے ولے اداروں پرذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ معاشرے کی پسی ہوئی ہوئی عورت کی آواز سنیں اسکے لیے ہم میں خود ادراک ہوناچاہیے ۔حجاج بن یوسف نے ہزاروں میل سے مددکیلئے پکارنے والی خاتون کی آواز سنی اور کہا ہاں میں آیا۔ ہم اپنے ارد گرد عورت کے ساتھ بربریت کے واقعات دیکھتے ہیں لیکن خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔دوچاردن میڈیا واقعہ ہائی لائیٹ کرتاہے پھرمکمل خاموشی چھا جاتی اورواقعات روزبروز بڑھتے رہتے ہیں۔