وزیراعظم کی بہترین حکمت عملی کے باعث اپوزیشن کے مسائل میں اضافہ
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
سیاسی حالات مسلسل بدل رہے ہیں، گذشتہ چند روز میں وزیراعظم عمران خان کی بہتر سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے اپوزیشن کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ آج تک کی سیاسی ملاقاتوں، پیشرفت، بات چیت، وعدوں اور اپوزیشن کے اقدامات کو دیکھا جائے تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے چالیس اور ناکامی کے ساٹھ فیصد امکانات ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا اپنے اراکین قومی اسمبلی کو خط یہ بتا رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر حالات وہ نہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ایک عدم اعتماد ہے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی طرف سے مارچ کے آخری ہفتے میں لانگ مارچ کا اعلان بھی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کی وجہ سے ہے۔ مولانا فضل الرحمن چند روز پہلے تک اس حوالے سے کچھ اور رائے رکھتے تھے۔ سیاسی رہنماؤں کے بدلتے ہوئے خیالات بدلتے حالات کی وجہ سے ہیں۔ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت بھی مشکل ترین دور سے گذر رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ لوگ ان کے سیاسی فیصلوں اور سیاسی کردار پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ گوکہ وہ یہ پسند نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ چودھری برادران کی فیصلہ سازی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہیں اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے جلد پائیدار فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ سیاسی ماحول خاصا آلودہ ہے کسی بھی اہم معاملے پر کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ یہ تمام باتیں بھی آج تک ہونے والے واقعات پر ہیں۔ کل کیا ہوتا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اب تک کی صورت حال کے مطابق وزیراعظم عمران خان بہتر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے حزب اختلاف کے حملوں کا بہتر جواب دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون پر آئندہ انتخابات کو سامنے رکھ کر اعتماد کرنے والے حامد ناصر چٹھہ اور ان کے ساتھیوں کا حشر یاد رکھیں۔ جب مسلم لیگ نون حامد ناصر چٹھہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے مکر جاتی ہے تو پھر ان دنوں نون لیگ کی طرف دیکھنے والوں کو تاریخ پر نظر ضرور دوڑانی چاہیے۔ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے سیاستدانوں کو سب سے بڑا مسئلہ سیاسی جماعت کی ٹکٹ ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سمیت دیگر کئی مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر عوام کے پاس جانا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئندہ الیکشن سیدھا کر رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے بعد جس جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہے اس کا فیصلہ انتخابات سے قبل کرنا ہی بہتر ہے۔