عدم اعتماد : پی ٹی آئی کو کامیابی ہو یا ناکامی سیاسی عدم استحکام ہوگا
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
تحریک عدم اعتماد میں پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو یا پھر کامیابی اپوزیشن کو ملے دونوں صورتوں میں ملک کو سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو سیاسی ماحول اس وقت بن چکا ہے جس حد تک جذباتی بیانات جاری ہو چکے ہیں اس کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ ہارنے والے آرام سے بیٹھیں گے یا جیتنے والا سب کچھ نظر انداز کر کے صرف اور صرف بہتر مستقبل کی خاطر کام کرتا رہے گا۔ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے سیاسی نفرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن کی اس سیاسی حکمت عملی سے بھی ملکی معیشت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس دن سے تحریک عدم اعتماد کا معاملہ شروع ہوا ہے سٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان دیکھنے کو ملا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو، اپوزیشن میں کوئی بھی ہو۔ یہ دونوں چیزیں ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں آج اپوزیشن میں ہیں ہو سکتا ہے مستقبل میں حکومت کر رہی ہوں۔ اس وقت انہوں نے بھی تو ملک کو چلانا ہی ہے گری ہوئی سٹاک ایکسچینج اور مہنگا ڈالر ان کے لیے بھی مسئلہ ہو گا۔ ان حالات میں ایسے تمام مسائل کو قومی مفاد میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اس پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو پھر سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان کو ایک قدم آگے بڑھنا ہو گا سب کو گلے لگائیں، ملکی مفاد میں سب کو اکٹھا کریں، اپوزیشن ملک دشمن تو ہرگز نہیں ہے آپ سیاسی سوچ اور سیاسی فیصلوں سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ ان فیصلوں سے فائدہ بھی ہوسکتا اور نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اپنے لوگوں کو ملک دشمن نہیں کہا جا سکتا۔ اپوزیشن کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت نہیں رہتی اور عمران خان اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں تو پھر وہ سڑکوں پر ہوں گے اور کسی کے لیے بھی ملک چلانا مشکل ہو گا کیونکہ کئی برس وزیراعظم رہنے کے بعد ماضی میں کی جانے والی کئی کارروائیاں ان کی نظر سے گذری ہوں گی اس لیے سیاست دانوں کو سب سے پہلے ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرنے کی سوچ اپنانا ہو گی۔