عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں عمران کارکنوں کو اپوزیشن کیلئے ریار کر رہے
تجزیہ :محمد اکرم چودھری
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کارکنوں کو اپوزیشن کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وہ اپوزیشن میں ہوں گے اور ممکنہ طور پر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے بعد وہ کسی بھی حکومت کے لیے سب سے زیادہ مشکل اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔ عمران خان کے جذباتی کارکن آج بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں جائیں گے تو دو ہزار گیارہ بارہ سے بھی زیادہ سخت موقف اور جارحانہ حکمت عملی اختیار کر سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر اپوزیشن میں جانے کے عمران خان کارکنوں تک اپنا بیانیہ پہنچا رہے ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف ان کا نقطہ نظر بہت واضح رہا ہے آنے والے دنوں میں وہ اس موقف کو زیادہ سختی کے ساتھ بیان کریں گے۔ کوئی بھی حکومت ہو انہیں روکنا آسان نہیں ہو گا۔ یقینی طور پر ہزاروں لوگ ان کے ساتھ سڑکوں پر ہوں گے۔ کیا کوئی بھی حکومت شہریوں کو ان کے احتجاج کے بنیادی حق سے روک سکے گی، ملکی سیاست میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی کمی آنے والے دنوں میں کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں نے پی ٹی آئی کے لیے مشکلات کھڑی کیں آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی ان کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے حقیقی کارکن چھوڑ کر گئے ہیں، جماعت چھوڑنے والوں کی اکثریت وہی ہے جو ہر چار پانچ سال بعد سیاسی جماعت بدلنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے اختلافات ضرور ہیں اور ان دنوں مخلص، ترقی پسند اور عوامی شخصیات کے معاملے پی ٹی آئی نے غلط حکمت عملی اختیار کی اور اس کا نقصان بھی اٹھایا ہے۔ ان دونوں اہم شخصیات کے ساتھ بہتر انداز میں معاملات کو سلجھانا چاہیے تھا۔ بہرحال اب وقت گذر چکا ہے اب تو یہی نظر آ رہا ہے کہ عمران خان ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کرتے نظر آ رہے ہیں اور وہ ایک مرتبہ پھر کسی بھی حکومت کے لیے بہت مشکل حریف ثابت ہوں گے۔ ملک بھر کی بڑی سیاسی جماعتوں کی اپوزیشن کے عمران خان کے جلسوں میں ہزاروں پرجوش افراد کی شرکت ان کی عوامی مقبولیت کو ظاہر کرتی ہے اور یہ تعداد کسی بھی آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہو سکتی ہے۔