اسلام آباد ، جرائم کی شرح آسمان پر ، شہری غیر محفوظ،2021ء بد ترین سال
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی دارالحکومت میں امن و امان اور جرائم کی نئی لہر سے شہری عدم تحفظ کا شکار ہو گئے خواتین اور راہگیروں سے نقدی، پرس، زیورات، موبائل فون چھیننے کی وارداتیں معمول بن گئیں سہالہ، کورال، بنی گالہ ،نیلور ، شہزاد ٹائون ، بھارہ کہو اور لوہی بھیر کے علاقوں میں مسلح افراد کی جانب سے زمینوں پر قبضے کرنے اور فائر نگ سے آئے روز لوگ قتل اور زخمی ہو رہے ہیں آئی جی اسلام آباد محمد احسن یونس جرائم کی اس تیزی سے آنے والی نئی لہرکو کنٹرول کرنے میں غیر موثر ہوگئے ہیں پولیس ایمرجنسی 15 پر کال کرنے والے شہری کال ہی پک نہ ہونے پر شدید ذہنی پریشانی سے گذررہے ہیں اس بات سے شہریوں کا پولیس کی جانب سے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے بلند و بانگ دعوئوں پر سے بھی اعتماد اٹھ رہا ہے اور نئی لہر کے سامنے شہری جرائم پیشہ عناصر کے سامنے خود کو مکمل غیر محفوظ اور بے بس سمجھنے لگے ہیں ۔2021 جرائم کے حوالے سے بدترین سال رہا جبکہ صورتحال بدستور مزید بدتر ہورہی ہے۔وفاقی دارالحکومت میں ڈکیتی، چوری، سرقہ بالجبر، سٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتیں، آبپارہ کے علاقے میں بیک وقت تین مقامات پر فائرنگ سے لیڈی ہیلتھ ورکر سمیت چار افراد کے قتل،پولیس لائن سے بنک سے تنخواہ نکلوانے جانے والی لیڈی کانسٹیبل اقراء کی پراسرار طور پر پولی کلینک میں موت، ترنول میں ڈمپر پر مسلح کار سواروں کی فائرنگ، شمس کالونی میں گھر میں دو بچیوں کو پھندا دے کر قتل کرنے، تھانہ شالیمار کے علاقے ایف ٹین مرکز میں نجی بینک کے گارڈ کے قتل، روزانہ جگہ جگہ فائرنگ کے رونما ہونے والے واقعات، زمینوں اور شہریوں کی املاک پردھڑا دھڑ قبضے، لڑکیوں کے اغواء ، خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات، سر عام پولیس مقابلے اور شہریوں کو دئے گئے کروڑوں روپے کے روزانہ چیک ڈس آنر ہونے کے واقعات سے عدم تحفظ کی لہر پھیل گئی ہے آئی جی اسلام آبادجو روزانہ کھلی کچہری منعقد کرتے ہیں ان کے سامنے متاثرہ شہری اپنی فریادیں لے کر درخواستیں پیش کرتے ہیں لیکن کرائم ریٹ کنٹرول نہیں ہوسکا جرائم کی نئی لہر سے شہرکے تھانوں کے ایف آئی آر رجسٹر بھر گئے ہیں 2022 ئ کے صرف ساڑھے تین ماہ میں ہر تھانے پانچ سے چھ سو تک مقدمات درج ہیں جرائم کی شرح بڑھنے پر سیف سٹی کیمروں سمیت جگہ جگہ لگے پرائیویٹ کیمرے بھی شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں موثر ثابت نہیں ہو رہے اسلام آباد میں جرائم کنٹرول کر نے کیلئے پولیس نیآپریشنز، انویسٹی گیشن ، واچ اینڈ وارڈ، کار سیل کے الگ الگ شعبے بھی بنائے جو کرائم کی موجودہ لہر میں عملاً غیر موثر ہورہے ہیں اسلام آباد کے ویمن سمیت 21 تھانوں میں روزانہ جرائم کے 50 سے زیادہ مقدمات درج ہوتے ہیں جن میں ڈکیتی، چوری، خواتین کے اغوائ، چیک ڈس آنر ، قتل ، اقدام قتل، فائرنگ، زمینوں اور املاک پر قبضے، کاریں ، موٹرسائیکل چھینتے اور چوری کی وارداتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں پولیس کی جانب سے مغویان کی بازیابی کی شرح بھی کم ہوتی ہے جبکہ ڈکیتی، چوری اور سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ملوث ملزمان بھی اس رفتار سے پابند سلاسل نہیں ہوتے جس رفتار سے کرائم ریٹ بڑھا ہے پی ڈبلیو ڈی، جناح سپر، بلیو ایریا، ایف ٹین مرکز ، جی الیون مرکز، سپر مارکیٹ، آبپارہ مارکیٹ اور سڑکوں پر سٹریٹ کریمنل سر عام دندناتے پھر رہے ہیں وفاقی دارالحکومت کے چاروں پولیس زون رورل، سٹی ، صدر اور انڈسٹریل ایریا کے متاثرین کرائم کی موجودہ لہر سے شدید متاثرہوئے ہیں شہری ایف آئی آر درج ہونے کے بعد بھی پولیس کی جانب سے عدم تعاون کی شکایات کر رہے ہیں آئی جی اسلام آباد کو شہریوں کی دی گئی آن لائن شکایات کے بھی انبار لگ گئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں میں عدم تحفظ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔