• news

جتھے لاکر ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اجازتنہیں دیں گے: چیف جسٹس

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں جتھے لاکر کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ عدالت میں سوال ہے کہ ذاتی چوائس پارٹی موقف سے مختلف ہو سکتی یا نہیں؟۔ حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ صدارتی ریفرنس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا، البتہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر آرٹیکل 63 اے کی کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سیاسی جماعتوں کو جلسوں سے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت کی۔ فضل الرحمن، شہباز شریف اور بلاول بھی عدالت پہنچے۔ سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سپیکر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے حالانکہ آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے، 14 دن سے زیادہ اجلاس میں تاخیر کرنے کا کوئی استحقاق نہیں، تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ ووٹ ڈالنے میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے، اجلاس بلانا اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت ابھی تک اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کرنے پر قائل نہیں، بس یہ دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، جس کے تحت سیاسی جماعت کے حقوق ہوتے ہیں۔ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 دو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے، جسٹس منیب اختر نے بار کے وکیل سے استفسار کیا آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے، بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟۔ جس پرسپریم کورٹ بار کے وکیل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسمبلی سپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں آئین ووٹ کے حق بارے بات کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیں ووٹ ڈالیں، سوال یہی ہے کہ ذاتی چوائس پارٹی موقف سے مختلف ہو سکتی ہے یا نہیں؟، ووٹ کا حق کسی رکن کا absolute (مطلق) نہیں ہوتا۔ سپریم بار کے وکیل نے آرٹیکل 66 کا بھی حوالہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہاآرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ یہ تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ آپ بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟۔ بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے۔ چیف جسٹس نے کہا بار بار پوچھ رہے ہیں سندھ ہائوس میں کیا ہوا؟ بار ایسوسی ایشن کو سندھ ہائوس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟ اور عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں بار کی جانب سے درخواست ہے جو کہ رکن اسمبلی نہیں ہے۔ مفاد عامہ کی بات کریں۔ جس پر وکیل نے کہا پارلیمانی جمہوریت میں اس سے اہم کوئی چیز نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ آئین کے تحت مرکزی ادارہ ہے اسکو کام کرنا چاہئے۔ آئین کے تحت سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہیں۔ کسی رکن کے ووٹ کو پہلے نہیں روکا جا سکتا سماجی طور پر چیزوں کو روک کر عوامی مفاد نہیں کیا جا سکتا اور یہ ہی بار کی درخواست ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بار نے اپنا کیس تیار نہیں کیا بار کو عدم اعتماد سے کیا مسئلہ ہے۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟ جس پر آئی جی اسلام آباد احسن یونس نے عدالت سندھ ہائوس حملے پر رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائوس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، کیونکہ ملزم مختلف حربے کو اپنا کر سندھ ہائوس پہنچے، بلکہ اصل چیز ارکان اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا جس کے معاشی ، اندرونی اثرات سامنے آئے اور شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے، ہفتے کو کیس سننے کا مقصد سب کو آئین کے مطابق کام کرنے کا کہنا تھا۔ آئین کے محافظ کے طور پر چاہتے ہیں کہ سب جماعتیں ایسی صورتحال سے دور رہیں انتظامیہ ہو یا کوئی عام شہری ہر ایک پر لازم ہے کہ قانون کے مطابق چلے۔ سندھ ہائوس معاملہ کا ایک فوجداری پہلو ہے اس کا بھی جائزہ لیا جائے گا تاہم سارے معاملے کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت کو پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے، لیکن رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے ، حساس وقت میں مصلحت کیلئے کیس سن رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سندھ ہائوس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، میں نے وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، اس پر وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، سندھ ہائوس واقعہ کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے ایف آئی آر پر جس کو شکایت ہے وہ متعلقہ فورم سے رجوع کریں، یقین دلاتا ہوں سندھ ہائوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں اٹارنی جنرل پر مکمل یقین ہے۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ او آئی سی کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے، کیس میں ہمیں سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں، وزیراعظم سے گفتگو کے بعد عدالت کو کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں۔ اٹارنی جنرل نے حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی کہ قومی اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہو گا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے بیانات دیے ہیں، ہم پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کررہے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی، کوئی رکن اجلاس میں نہ آنا چاہے تو زبردستی نہیں لایا جائے گا، پارٹی سربراہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا، اس نقطے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں، البتہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر آرٹیکل 63 اے کی کارروائی ہو گی، حکمران جماعت پر ہارس ٹریڈنگ کا کوئی الزام نہیں، کسی اپوزیشن جماعت پر بھی الزام نہیں لگائوں گا، کوئی بھی سرکاری افسر غیر قانونی حکم ماننے کا پابند نہیں، یقین دہانی کراتا ہوں کہ پارلیمان کی کارروائی آئین کے مطابق ہوگی، آئینی تقاضوں کو پورا نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم سپریم کورٹ سے کوئی حکم امتناعی نہیں مانگ رہے اور صدارتی ریفرنس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی کارروائی بھی متاثر نہیں ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا، لیکن ووٹ شمار ہونے پر ریفرنس میں سوال اٹھایا ہے، ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہوگا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائوس واقعہ پر اٹارنی جنرل کا موقف خوش آئند ہے، دونوں طرف سے ہونے والے واقعات عدالت کے سامنے ہیں۔ کوئی شک نہیں کیا پارلیمنٹرینز اور سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں، مگر بعض غیر ذمہ داران سیاست میں آکر ایسی کوئی حرکت کرسکتے ہیں، توقع ہے حکومت بھی سندھ ہائوس واقعے کی مذمت کریگی، صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات کا دیگر جماعتوں کے وکلا بھی جائزہ لے لیں۔ صدارتی ریفرنس کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، ہمارے پاس دستاویزات نہیں ہے کہ 25 مارچ کو اسمبلی اجلاس بلانے کی کیا وجہ ہے، اس عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنا ہے، ہمیں 24 تاریخ کو مواد لاکر دکھا دیں، اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں تو مل کر جلسوں کا کوڈ آف کنڈکٹ بنا لیں۔ اپوزیشن لیڈر کے وکیل نے بھی پرامن جلسوں کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ چاہتے ہیں تمام عمل امن و امان کیساتھ مکمل ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی اور اپوزیشن ضلعی انتظامیہ سے ملکر جلسوں کی جگہ کا تعین کریں، اس سے تصادم کا خطرہ نہیں ہوگا۔ پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اعتراض اٹھایا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے بروقت اجلاس کیوں نہیں بلایا۔ سپیکر کی جانب سے اجلاس بلانے میں تاخیر آئین سے انحراف ہے اور اس پر آرٹیکل چھ لگنا چاہیے جس پر اٹارنی جنرل نے فوری جواب دیا کہ جس پر آرٹیکل چھ پہلے لگ چکا ہے اس کو تو سزا دلوا لیں۔ چیف جسٹس نے کہا سپیکر کی رولنگ عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، سپیکر پر کوئی اعتراض ہو تو پارلیمنٹ میں اٹھائیں، سپیکر بھی پارلیمنٹ اور آئین کا حصہ ہے، اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ حکومت پرامن انداز میں احتجاج کرے گی۔ جے یو آئی ایف کے وکیل کامران مرتضی نے کہا جتنا حکومت پارلیمنٹ سے دور جلسہ کرے گی اتنا ہی اپوزیشن بھی پارلیمنٹ سے دور جائے گی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکھٹے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں، ڈی چوک کا استعمال نہ کریں، جو بھی احتجاج اور جلسے ہوں ضلعی انتظامیہ کی مشاورت سے ہوں، ایک جماعت جہاں جلسہ کر رہی ہو وہاں دوسری کو اجازت نہیں ہوگی، دونوں فریقین کے جلسوں کا وقت الگ ہو تاکہ تصادم نہ ہوسکے، ریفرنس پر حکومتی اتحادیوں کو نوٹس نہیں کر رہے، تمام جماعتیں تحریری طور پر اپنا موقف دینگی، کسی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا کوئی سوال ریفرنس میں نہیں اٹھایا گیا، موجودہ حالات میں حکومت کا موقف بہت بہتر نظر آ رہا ہے۔ جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم نے او آئی سی کے احترام میں 23 مارچ کو ہونے والا جلسہ 27 تک ملتوی کیا، لیکن حکومت کہہ رہی ہے کہ جو اراکین ووٹ ڈالنے جائیں وہ جتھے سے گزر کر آئیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جتھے سے گزر کر آنا جانا نہیں ہو سکتا، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے، صدارتی ریفرنس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی، کوشش کریں گے جلد ریفرنس پر اپنا فیصلہ دیں۔ پیپلز پاٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا سیاسی تقریر نہیں کرنا چاہتا لیکن موجودہ حکومت نے دھجیاں اڑا دیں موجودہ صورتحال میں ورکرز کا اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی جھگڑا ہو جائے گا، عدالت سارے بیانات کا جائزہ لے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے دوران سماعت مٹھاس کو نوٹ نہیں کیا، ہم تو کوئی فیصلہ بھی نہیں دے رہے صرف ہدایت کر رہے ہیں سب جماعتیں آئین اور جمہوریت پر کمٹڈ ہیں تو معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا، جو بھی شکوک شبہات ہیں آئندہ سماعت پر بتا دیں۔ اپوزیشن لیڈر کے وکیل نے کہا موجودہ صورتحال میں انتظامیہ پر بہت دبائو ہے جس کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ ریفرنس کی سماعت کیلئے لارجر بینچ تشکیل دے رہے ہیں اور کیس کی مزید سماعت 24 مارچ جمعرات تک ملتوی کردی۔ قبل ازیں حکومت نے ارکان اسمبلی کی جانب سے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کردیا صدارتی ریفرنس میں چار سوال اٹھائے گئے ہیں۔ پہلاسوال دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ کیا آرٹیکل 63A کی تشریح کے مطابق پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ دوسرے حصے میں عدالت سے پوچھا گیا ہے کہ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا جانے والا ووٹ شمار ہو گا۔ تیسرے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا صادق اور امین نہیں رہے گا کیا وہ تاحیات نا اہل ہو گا، اور چوتھاسوال پوچھا گیا ہے کہ ووٹ کی خریداری، فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کیلئے کیا طریقہ کار ہو سکتا ہے۔ صدارتی ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس آئین کے آرٹیکل 63 اے کے گرد گھومتا ہے۔ ماضی میں بھی بہت سے مواقع پر فلور کراسنگ ہو چکی ہے موجودہ صورتحال میں بھی ایک مرتبہ پھر غیر قانونی طور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور ووٹوں کی خریداری کا عمل جاری ہے اور جب تک اس لعنت کو بروقت اور زبردستی جڑ سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا، ایک حقیقی جمہوری سیاست ہمیشہ کے لیے ایک ادھورا خواب اور خواہش ہی رہے گی۔ معزز عدالت سپریم کورٹ کی جانب سے17، 62 اور 63A کی مضبوط اور با مقصد تشریح کے ذریعے سے ہی ہارس ٹریڈنگ کے کینسر کو ختم کرنے کا آئینی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں پارلیمانی طرز حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور آئین کی دفعات کے مطابق وقتاً فوقتاً انتخابات کے ذریعے بالآخر عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں۔ ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے وقت، ووٹر مختلف امیدواروں کا اندازہ اس پارٹی کے سیاسی نظریے اور منشور کی بنیاد پر کرتے ہیں جس سے امیدواروں کا تعلق ہے۔ وہ بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں، جو بالآخر قومی اور/یا صوبائی سطح پر حکومت بناتی ہیں۔ ریفرنس کے اختتام میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عدالت کی جانب سے سوالات کے جوابات کے نتیجے میں ہی اعتمادکے لائق جمہوری عمل کو پاک اور مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت کی جانب سے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن