• news

حکومت آئین توڑنے پر اتر آئی ، اپوزیشن: او آئی سی کانفرنس کیخلاف انکی مہم بھارت ، اسرائیل سے بھی زیادہ ، وزرا

اسلام آباد (نیٹ نیوز) شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، سپیکر نے او آئی سی اجلاس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا۔ انہوں نے جان بوجھ کر آئین سے انحراف کیا۔ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں شہباز شریف نے کہا کہ سپیکر نے قانون سے جو انحراف کیا ہے وہ معاملہ اب عدالت  میں  زیر سماعت ہے اور اس پر فیصلہ اب عدالت کرے گی۔  اپوزیشن کو ٹریپ کرنے کے لیے سپیکر نے اجلاس نہیں بلایا۔ امید ہے اٹارنی جنرل نے عدالت میں جو کہا اس پر قائم رہیں گے۔ او آئی سی اجلاس کے باعث اپنا لانگ مارچ ملتوی کیا، او آئی سی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے آنے والے رہنما ہمارے مہمان ہیں، ہمارے بھائی ہیں، ہم دل ول جان سے ان کا استقبال کرتے ہیں، انہیں خوش آمدید کہتے ہیں، اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کیا جانے والے پروپیگنڈا بے بنیاد ہے۔ وزیراعظم نے بھارتی خارجہ پالیسی کی تعریف کی۔ ان کے بیان سے 22 کروڑ عوام کے جذبات مجروح ہوئے۔  مودی پاکستان کو دہشتگرد کہتا ہے۔ نریندر مودی سی پیک کے بھی خلاف ہے۔ بلاول نے کہا  ارکان کو ووٹ ڈالنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ حکومت اتنی گھبرائی  ہوئی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے بھاگنے کیلئے آئین توڑنے پر اتر آئی ہے۔ حکومت نے سپیکر  قومی اسمبلی کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کی۔ حکومت نے پہلے پارلیمنٹ لاجز پر حملہ کیا اس کے بعد سندھ ہاؤس میں پناہ لینے والے ارکان کے خلاف اپنے کارکنوں کو اشتعال دلا کر ان پر سندھ ہاؤس میں حملہ کرایا گیا۔ کسی سیاسی جماعت نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا بلکہ بار ایسوسی ایشنز نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کیا۔ بلاول بھٹو نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سپیکر کو چاہیے کہ وہ کسی بھی اقدام سے پہلے اپنے وکلا سے مشورہ کریں، یہ حکومت آئین شکنی کر رہی ہے، یہ حکومت انہیں آئین شکنی کا مجرم بنا رہی ہے۔ فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوچکی، اس حکومت میں ملک میں جمہوریت نہیں ہے، ایک آمرانہ طرز حکومت ہے، آمرانہ سوچ ہے، یہ حکومت چور دروازے سے اقتدار میںآئی ہے اور مختلف حیلوں، بہانوں سے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت نے ملک کی معیشت تباہ کردی، ملک میں بھوک و پیاس کو عام کردیا، اس کے باوجود حیرت ہے کہ ان کو عوام کے سامنے آنے کی ہمت کیسے ہو رہی ہے، ہم اس حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے حق اور سچ کا علم بلند کرتے ہوئے میدان عمل میں ہیں اور اس فتنہ حکومت کے خاتمے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہارس ٹریڈنگ سے متعلق وزراء کے بیانات کے حوالے سے  انہوں نے کہا  حکومت کی کون سی بات میں تضاد نہیں ہے، ان کی پوری تاریخ تضادات سے بھری ہوئی ہے، آج ایک بات کہتے ہیں، کل دوسری بات کرتے ہیں، جب ان کی حکومت بنانے کے لیے جہاز گھوم رہے تھے تب وہ آنے والے لوگوں کو ضمیر کی آواز پر آنے والے کہتے تھے۔ آج جب ان کے لوگ  ان کی حکومت کی نااہلی نالائقی اور بری کارکردگی سے نالاں و ناراض ہوکر ان سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں تو وہ انہیں ضمیر فروش اور ہارس ٹریڈنگ میں ملوث قرار دے رہے ہیں۔ کس کس بات کا حوالہ دیا  جائے ان کی ہر بات میں تضاد ہے۔ ہم 25 مارچ کو لانگ مارچ شاہراہ دستور پر لے کر آئیں گے جبکہ ہم نے اس سے قبل پرامن آزادی مارچ بھی کیا۔ اس لئے ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم توڑ پھوڑ اور تشدد پر یقین رکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مافیاز کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں، چوروں اور لٹیروں کے خلاف جدوجہد جاری ہے، یہ سلسلہ منطقی انجام کو پہنچے گا، آرٹیکل 63 اے آئین کا بنیادی حصہ ہے، لوگوں کے ضمیر خریدنے، لوٹا کریسی کو ریگولرائز کرنے کی کوشش اور منتخب حکومت کے خلاف سازش پر سپریم کورٹ سے تشریح مانگی گئی ہے، سپریم کورٹ سے جو بھی جواب آئے گا، وہ عوام کے سامنے رکھیں گے، او آئی سی وزرا خارجہ کانفرنس کے خلاف جتنی سازش اپوزیشن نے کی اتنی بھارت اور اسرائیل نے نہیں کی، ن لیگ کا میڈیا سیل پی ٹی آئی کی ڈی پیز بنا کر فوج کے خلاف مہم چلا رہا ہے، فوج اور پی ٹی آئی میں تفرقہ ڈالنے کی ن لیگ کی ایسی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ بات انہوں نے پیر کو یہاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر اور مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان بھی موجود تھے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر بھی بات ہوئی ہے، آرٹیکل 63 اے آئین کا بنیادی حصہ ہے، سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی جائے اور بتایا جائے کہ پاکستان کے آئین کے تحت ضمیر فروشی، لوٹا کریسی، ووٹ فروخت کرنے کی اجازت ہے یا نہیں، ہمیں پہلے دن سے پتہ تھا کہ مافیاز کے خلاف اقدامات پر ہمارے خلاف سازشیں ہوں گی، ڈاکوئوں کو اکھاڑنا ایک بڑا چیلنج ہوگا، یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان اس طرح کے چیلنج سے نبرد آزما ہوئے ہوں، عمران خان نے زندگی میں ہمیشہ بڑے چیلنج لئے ہیں، موجودہ چیلنجز کو بھی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس 22 کو نہیں ہوا تو 25 کو ہو جائے گا، اس میں کون سی قیامت آ جائے گی۔ اپوزیشن نے او آئی سی کے خلاف جتنی مہم چلائی اتنی بھارت اور اسرائیل نے بھی نہیں کی، جو لوگ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ او آئی سی کانفرنس کر کے دکھائو، ان کو شرم آنی چاہئے۔ فضل الرحمان نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں اسلام کے نام پر ووٹ لیا لیکن انہوں نے اسلام کے لئے کیا خدمت انجام دی۔ عمران خان نے دنیا میں اسلاموفوبیا کے خلاف مہم شروع کی، ناموس رسالتﷺ پر پہرہ دیا، عمران خان پاکستان میں اسلامی فلاحی مملکت کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کے نومولود لیڈرز نے اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، اسلامی وزرا خارجہ کانفرنس کی تاریخیں ایک سال پہلے طے ہوئیں، اس کی حتمی تاریخ کا اعلان بھی چھ سے آٹھ مہینے پہلے ہوا، اپوزیشن اپنی قرارداد دس دن بعد جمع کرا لیتی تو کیا قیامت آ جاتی۔ اپوزیشن کی تمام کوششیں پاکستان کے مفادات کو زد پہنچانے کے لئے ہیں، وزیراعظم عمران خان، مولانا فضل الرحمان اور ان کے نام نہاد اتحاد کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ہم نے منحرف ارکان کو سات دن کا موقع دیا ہے، وہ واپس آ جائیں، اگر واپس نہیں آتے تو ان کی تاحیات نااہلی ہوگی، ایسے ارکان اپنے بچوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی قرارداد کے تحت تین دن کے لئے قومی اسمبلی ہال اسلامی سربراہی کانفرنس کو دیا گیا ہے، اس پر اپوزیشن کی مخالفت قابل مذمت ہیں، سپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن کی ہر بات مانتے رہیں تو وہ ٹھیک ہیں۔ عمران خان کی حکومت اور پاکستانی فوج ملک کے استحکام کے آئینہ دار ہیں، افواج پاکستان حکومت کے پیچھے کھڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چور سپاہی مل کر نہیں چل سکتے، کوئی سپاہی چوروں کے ساتھ نہیں ملتا، اپوزیشن اپنے کردار کو بدلنے کی کوشش کرے۔ اپوزیشن نے ڈاکوئوں اور چوروں کی سلطنت کھڑی کر دی ہے اور ان کی توقع ہے کہ پاکستان کے عوام ان کے پیچھے کھڑے ہوں گے تو ایسا ہر گز نہیں ہوگا، اس لڑائی میں فتح حق اور سچ کی ہوگی۔ ہم نے کبھی مخالف پارٹی کا ایک ایم این اے نہیں توڑا، نہ اب ہم یہ کرنے جا رہے ہیں، آئین میں موجود ہے کہ آزاد امیدواروں نے الیکشن کے بعد فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے کون سی پارٹی جوائن کرنی ہے۔ کسی دوسری پارٹی کا ہم نے کوئی آدمی نہیں توڑا اور نہ ہی کوئی فارورڈ بلاک بنایا۔ پیپلز پارٹی نے سندھ حکومت کے پیسے پر لانگ مارچ کیا، سندھ ہائوس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، ہمارے پاس چار صوبوں کے پیسے تھے، ہم پیسے لگانا شروع کر دیتے تو یہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن عمران خان نے پہلے دن واضح کر دیا تھا کہ ہم نے ایک روپیہ دے کر کسی بندے کو نہیں لانا اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا، یہ لیڈر شپ کا فرق ہے جو عمران خان اور باقی لوگوں میں موجود ہے، یہی وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر ہم نیا پاکستان حاصل کریں گے۔ ایک ٹویٹ میں فواد حسین نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت ریفرنس سپریم کورٹ کو یہ موقع دے رہا ہے کہ ملک میں جاری ہارس ٹریڈنگ، موقع پرستی اور کرپشن کے ڈرامے ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکیں۔ پی ٹی آئی  سے منحرف ارکان نے اپنی جماعت نہیں ملک کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے، انہیں سزا دینا اسی طرح اہم ہے جیسے ملک کے غداروں کو  دی جاتی ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ 25 مارچ کو سپیکر نے جو اجلاس طلب کیا ہے اس سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ آئین (3) 254 میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی عمل کرنے کے لئے تاریخ مقرر کی جائے اور اس عرصے میں وہ عمل نہیں ہوتا تو یہ غیرقانونی نہیں ہے۔ اس لئے سپیکر نے آئین کے عین مطابق اجلاس کی تاریخ طے کی۔ اگر کوئی تحریک آتی ہے تو انہیں پہلے لیف لینی پڑے گی اس کے بعد وہ قرارداد بنے گی اور کم از کم 3 روز اور زیادہ سے زیادہ 8 روز میں قرارداد پر بحث ہو گی۔ بہت لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ووٹ نہیں ڈالا جائے نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں وضاحت دی گئی ہے کہ جو شخص پارٹی کے سربراہ کی بات نہیں مانے گا وہ نااہل ہو جائے گا۔ جو پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ ہم اجلاس نہیں ہونے دیں گے ان کی متفقہ رائے سے او آئی سی اجلاس کے لئے اسمبلی ہال دینے کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ آئین کے مطابق عمران خان جب کہیں گے یہ رکن نااہل ہو گیا ہے تو اسے نااہل ہی تصور کیا جائے گا۔ حماد اظہر نے کہا کہ فلور کراسنگ کا یہ قانون ان کی جماعتوں نے منظور کیا تھا جو آج اس کے مخالف ہیں‘ اس وقت عوام ایک طرف کھڑے ہیں اور چوری کا پیسہ اور چوری کا سرمایہ ایک طرف کھڑے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد میں انشاء اﷲ جیت نئے پاکستان‘ صاف ستھری سیاست کی اور آئین و قانون کی بالادستی کی ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن