سپریم کورٹ بار کی درخواست، صدارتی ریفرنس اکٹھے نہیں سنے جا سکتے:جسٹس فائز کا چیف جسٹس کو خط
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منحرف ارکان پارلیمنٹ سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے دائر ریفرنس کے لیے لارجر بنچ کی تشکیل سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کوخط لکھ دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس اکٹھے نہیں سنے جا سکتے، حیران ہوں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے، یہ بات قابلِ فہم ہے کہ بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی، اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے۔ درخواست کے ساتھ ریفرنس کو یکجا کر کے کیسے سنا جا سکتا ہے؟۔ درخواست 184/3 کے اختیار سماعت کے تحت سنی جا رہی ہے جبکہ ریفرنس مشاورتی اختیار سماعت ہے، درخواست اور ریفرنس دونوں سپریم کورٹ کا الگ الگ اختیار سماعت ہیں۔ ایک ہی بنچ 2 مختلف اختیار سماعت میں بیک وقت سماعت نہیں کر سکتا، آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بینچ بنایا گیا ہے، بار کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں چوتھے، آٹھویں اور تیرھویں نمبر کے فاضل ججز کو شامل کیا گیا ہے۔ آپ نے سابق چیف جسٹس کی روایت سے پہلو تہی کی، اہم آئینی معاملات کی سماعت میں سابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کا صوابدیدی اختیار طے کیا ہے، سابق چیف جسٹس نے طے کیا کہ سینئر ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔ یہ ایک ایسا معاملہ جس پر پوری قوم سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی میں ذاتی مفاد کو ملحوظ نہیں رکھے گا، کہاوت ہے کہ انصاف ناصرف ہو بلکہ ہوتا نظر بھی آئے، کہاوت کا ذکر ججز کے ضابطہ اخلاق میں پانچویں نمبر میں بھی درج ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار شفاف‘ مبنی بر انصاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے، جناب چیف جسٹس کئی مرتبہ آپ کو تحریری طور پر مطلع کر چکا ہوں، ایک بیورو کریٹ کو وزیر اعظم ہاؤس سے درآمد کر کے رجسٹرار تعینات کیا گیا۔ عام تاثر ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مقدمہ کس بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہو، میری رائے میں رجسٹرار کی تقرری عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کے آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ یہ خط لکھتے ہوئے میں نے دو مرتبہ سوچا، تاہم آئین کے آرٹیکل 175/3 اور 180 میں آئین سینئر ترین جج کا ذکر کرتا ہے۔ سنیارٹی ذمے داری بھی عائد کرتی ہے، سینئر ججز سپریم کورٹ کا بطور ادارہ تسلسل ہوتے ہیں، جہاں تک مجھے علم ہے کہ آپ کے تمام سابق چیف جسٹس سینئر ترین جج سے مشاورت کرتے تھے، آپ نے اس روایت کو بھی ختم کر دیا جس کے ادارے پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔