آئین کی تشریح سے ادھر اسھر نہیں جا سکتے ، ممکن ہے صدارتی ریفرنس واپس بھیج دیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پارٹی کے اندر جمہوریت ہوتو63 اے کی ضرورت نہیں رہتی ۔خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔ اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے۔الیکشن ایکٹ 2017 بناتے وقت کس چیز کا خوف تھا۔ ہمیں تشریح کا کہہ رہے ہیں جبکہ پارلیمنٹ نے ڈی سیٹ سے زیادہ کچھ نہیں لکھاجسٹس جمال خان مندو خیل نے کہالوٹوں کی سپورٹ کرنے والا آخری شخص ہوگا۔سپریم کورٹ میں آ رٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں۔ مخصوص نشستوں والے ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا۔مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہائوس میں موجود تھے۔ مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاخیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔ اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے آپکے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں۔کیا کوئی رکن بھی ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا۔امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن کیا ممبر شپ فارم میں رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ ڈسپلن کا پابند رہے گا؟ اگر پارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہے تو خلاف ورزی خیانت ہو گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔اگر وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا ممبر پھر ساتھ دینے کا پابند ہے؟ کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفکیٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے۔وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ووٹر انتحابی نشان پر مہر لگاتے ہیں کسی کے نام پر نہیں۔ پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے والے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا برصغیر میں بڑے لیڈرز کے نام سے سیاسی جماعتیں آج بھی قائم ہیں۔ مسلم لیگ اور کانگریس بڑے لیڈرز کی جماعتیں ہیں۔پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمانی پارٹی اجلاس ہوتے ہیں۔ ارکان اسمبلی ربڑ سٹمپ نہیں ہوتے، پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے، پارٹی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کیخلاف جایا جائے، رضا ربانی نے پارٹی ڈسپلن کے تحت فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا، یقین ہے رضا ربانی نے نااہلی کے ڈر سے ووٹ نہیں دیا ہوگا، جسٹس مظہر عالم نے کہاپارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے والا استعفی کیوں دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاہر شخص آئین اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہاارکان اسمبلی صرف چار مواقع پر آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے۔بطور ایڈوکیٹ جنرل سندھ ہائوس میں رہتا تھا سندھ ہائوس میں ایسی کوئی ڈیوائس نہیں تھی جو ضمیر جگائے ۔چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب اپ کو بتانا ہوگا کہ رکن تاحیات نااہل کب ہوگا۔62ون ایف کوالیفکیشن کی بات کرتا ہے 62 ون ایف میں نااہلی کی بات نہیں کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا حکومتی جماعت کے لوگوں کا سندھ ہائوس میں جاتے ہی ضمیر جاگ گیا؟جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاوزیراعظم ملک کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو کیا رکن مخالفت نہیں کر سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا ملک کے خلاف کام ہونے پر رکن خود کو پارٹی سے الگ کر سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاپارٹی سے اختلاف کرنے والا شخص کیا دوبارہ مینڈیٹ لے سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا ذاتی مفاد کیلئے اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جانا بے وفائی ہے پارٹی کے اندر جمہوریت ہوتو آرٹیکل 63 اے کی ضرورت نہیں رہتی، آرٹیکل63 اے کی خوبصورتی ہے کہ اسے استعمال کرنے کا. موقع ہی نہ ملے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کیا مناسب نہ ہوتا کہ صدر پارلیمانی جماعتوں کا بلا کر مشورہ کرتے، کیا عدالت سے پہلے سیاسی جماعتوں سے مشورہ کرنا مناسب نہیں ہوتا، پارلیمانی جماعتوں سے ملکر آئین میں ترمیم ہو سکتی تھی۔اٹارنی جنرل نے کہاغلام اسحاق اسی طرح سب کو بلایا کرتے تھے،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاابھی تو کسی نے انحراف کیا ہی نہیں آپ ریفرنس لے آئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا جرم کو ہونے سے روکنا مقصد ہے، جسٹس مظہر عالم نے کہاجرم ہونے سے پہلے سزا کیسے دی جا سکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا قانون واضح کرنے کیلئے عدالت آئے ہیں، جرم ہو تو سزا دینے کے لیے قانون واضح ہونا چاہیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاآئین کی تشریح کرنا اس سپریم کورٹ کا کام ہے، اٹارنی جنرل نے کہا حسبہ بل کے ڈرافٹ پر ہی حکومت عدالت آگئی تھی، حسبہ بل ریفرنس میں بھی قانون نہ بننے کا اعتراض آیا تھا ، سپریم کورٹ نے بل کی منظوری نہ ہونے کا اعتراض مسترد کر دیا تھا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت نے آرٹیکل 63 A کے تحت اعتراف کے نتائج کا تعین کرنا ہے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکیا عدالت ریفرنس میں جوڈیشل اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے اٹھارہویں ترمیم پر پارلیمانی بحث عدالت میں پیش کی۔ چیف جسٹس نے کہا کیا خالی جگہ عدالت نے پر کرنی ہے اٹارنی جنرل نے کہاآرٹیکل باسٹھ ون ایف میں بھی خالی جگہ موجود ہے۔ عدالت نے ارٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح کر دی۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکیا عدالت آئین میں کسی فل سٹاپ کا بھی اضافہ کر سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاآرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں براہ راست تعلق ثابت کروں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاآئین کے کسی ارٹیکل کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا۔ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔ پارلیمانی بحث میں ہارس ٹریڈنگ کو کینسر قرار دیا گیا ہے۔ عدالت نے ارٹیکل 63 A کے تحت انحراف کے نتائج کا تعین کرنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہالوٹوں کی سپورٹ کرنے والا آخری شخص ہوں گا۔ پارٹی سے انحراف کرنے والے کے خلاف الیکشن کمیشن کا فورم موجود ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکسی کی بھوک مٹانے کے لیے چوری کرنا بھی جرم ہے۔جسٹس جمال خان نے کہاکوئی چوری کرنے والے کا ساتھ جائے تو کیا ہو گا؟ صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیا ہے؟ جو رائے مانگ رہے ہیں۔صدر کے سامنے ایسا کونسا مواد ہے جس پر سوال پوچھے؟ اٹارنی جنرل نے کہاعدالت صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکیا ارٹیکل 63A سے انحراف پر آرٹیکل باسٹھ ون ایف لگے گا۔ آرٹیکل 63A نشست خالی ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ جسٹس جمال خان نے کہاکوئی رکن ووٹ ڈالنے کے بعد استعفیٰ دیدے تو کیا ہو گا۔ اٹارنی جنرل نے کہاانڈیا میں ایک رکن نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیکر استعفیٰ دیا تھا۔ جس پر بھارتی عدالتوں نے مستعفی رکن کو منحرف قرار دیا تھا۔ پارٹی سے انحراف پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے تشریح سے ادھر ادھر نہیں جاسکتے یہ بھی ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاآرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی بھی پارلیمنٹ نے نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہاآرٹیکل باسٹھ ون ایف میں عدالت کا کردار شامل ہے۔ڈیکلریشن دینے والی عدالت الیکشن ٹربیونل بھی ہو سکتی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن عدالت ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہامیری نظر میں الیکشن کمیشن عدالت نہیں چیف جسٹس نے کہاالیکشن کمیشن عدالت نہیں تو ڈیکلریشن کون دے گاجس پر اٹارنی جنرل نے کہاسپریم کورٹ ڈیکلریشن دے گئی۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا اگر تمام جماعتیں متفق ہیں تو آئین میں ترمیم کر لیں۔اٹارنی جنرل نے کہا تمام جماعتیں اس پر متفق ہیں آئین کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے آئین ازخود نہیں بلکہ عدالتوں کے ذریعے بولتا ہے۔ آئین کی درست تشریح عدالت ہی کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاقانون سازی کے ذریعے بھی آرٹیکل 63A کے تحت نااہلی شامل کی جاسکتی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہااگر ووٹ شمار نہ ہو تو دوسری کشتی میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکیا آرٹیکل 63 اے آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں۔ ؟ اٹارنی جنرل نے کہادفعہ 302 بھی قتل سے نہیں روکتی لیکن جیل جانا پڑتا ہے جس پر جسٹس جمال خان نے کہاقتل تو 302 کی سزا کے باوجود بھی ہورہے ہیں۔جمال خان مندو خیل نے کہاآرٹیکل 63 اے کے تحت رکن اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے؟ رکن پارٹی ڈائریکشن کی خلاف ورزی کرے گا تو آئینی نتائج بھگتے گا۔اٹارنی جنرل نے کہاآرٹیکل 63 اے کے تحت آجتک کوئی نااہل نہیں ہوا۔ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر پیسے لینا ثابت کرنا ضروری نہیں صرف پارٹی سربراہ کاشوکاز کا فی ہے وقت کی کمی کے باعث کیس ملتوی کرتے ہوے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب مزید کتنا وقت دلائل کیلئے درکار ہو گا جس پر اٹار نی جنرل نے کہا آئندہ سماعت پر دو گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔ سماعت کے اختتام پر ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعتیں کشمیر ہائی وے کو بلاک کرنا چاہتی ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاعدالتی حکم واضح ہے جے یو آئی کے وکیل کامران مر تضی نے کہاہم نے کہہ دیا ہے انتظامیہ کیساتھ تعاون کریں گے۔ پتہ نہیں انتظامیہ کیوں ہم سے ڈر رہی ہے۔جس کے بعد چیف جسٹس نے کہاہم چاہتے ہیں جمہوری قدروں کی پیروی کی جائے جس کے بعد عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام اباد کو جے یو آئی سے تعاون کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔