ممکن ہے حکومت 31 مارچ تک نہ پہنچ پائے ، وزیراعظم کہیں گے مجھے کیوں نکالا : سراج الحق
لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا وزیراعظم اپنی کارکردگی بتانے کی بجائے اداروں پر حملہ آور ہیں۔ الیکشن کمشن اور میڈیا پر حملوں کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اسلام آباد میں کھیل تماشا ذاتی مفادات کی لڑائی ہے۔ وزیراعظم مدینہ کی اسلامی ریاست کے لفظ کا غلط استعمال کرنے کے بعد اب امر بالمعروف جیسی مقدس اصطلاح کا بھی مذاق اڑا رہے ہیں۔ حکومت کا مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں ریکارڈ قرضہ ملک کے لیے تباہ کن ہے۔ ساڑھے تین سالوں سے دیر کے عوام بری طرح محروم ہیں۔ اس لیے 31 مارچ کو عوام مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور حکومت کی نااہلی کے خلاف ترازو پر مہر لگائیں گے اور جماعت اسلامی کو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کریں گے، کیونکہ موجودہ حکومت سے عوام تنگ آ چکے، کوئی ایک وعدہ بھی ساڑھے تین سال میں پورا نہیں کیا گیا۔ حکومت آئی ایم ایف کی ایماء پر عوام کا خون پسینہ نچوڑ رہی ہے۔ جماعت اسلامی نظام کی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز کر چکی۔ ہم پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں، جہاں غریب اور امیر کے لیے قانون ایک ہو، یکساں نظام تعلیم اور علاج کی سہولیات ہوں۔ چند دن بعد وزیراعظم عمران خان خود کہہ رہے ہوںگے کہ مجھے کس جرم میں نکالا گیا؟ یہ ممکن ہے حکومت 31 مارچ تک نہ پہنچ پائے۔ ان خیالات اظہار انھوں نے دیر اپر سپورٹس کمپلیکس میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مشتاق، عنایت اللہ خان اور سابق ایم این اے صاحبزادہ طارق اللہ نے بھی خطاب کیا۔ یہی آوازیں آئیں گی کہ مجھے کیوں نکالا اور کس نے نکالا ہے۔ عمران خان سوشل میڈیا کے پہلوان ہیں، عوام نے عدم اعتماد کر دیا ہے اب یہ ملک کے وزیراعظم نہیں رہیں گے۔ پی ٹی آئی کی کرپشن، گالیوں اور غلاضت کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ ڈومیسٹک وائیلنس بل آئین اور شریعت کے خلاف ہے اور یہ ہمارے کلچر،تہذیب اور خاندانی نظام پر حملہ ہے۔ حکومت آئین اور شریعت کے خلاف کسی بھی قانون سازی سے باز رہے اور ایسے تمام قدامات جن کی ہمارے آئین میں کوئی گنجائش نہیں ان کو فوری طور پر واپس لیں۔ جماعت اسلامی ایک انقلابی جماعت ہے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی وارث ہے اور اس ملک میں اللہ کے دین کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ ہم فرد اور معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، فرد تبدیل ہوگا تو معاشرہ تبدیل ہوگا اور حکومت بھی تبدیل ہوگی۔