• news

پرویز الہی کی نامزدگی کو ترین گروپ اور افسروں نے بھی سراہا


تجزیہ: ندیم بسرا
پنجاب  اور وفاق میں  پی ٹی آئی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے پنجاب میں چودھری پرویز الہی کو وزیراعلی نامزد کیا گیا ہے۔چودھری پرویز الہی کی بطور وزیراعلی کی نامزدگی کو بیوروکریسی سمیت ترین گروپ اور اس سے منسلک افراد نے سراہا ہے۔ ساتھ ویٹس ایپ گروپ میں مبارکباد کے پیغامات بھی شئیر کئے گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ترین کے مضبوط فاروڈ بلاک کو توڑنے کے لئے عمران خان نے چودھری پرویز الہی کو وزیراعلی بنایا ہے۔ذرائع کا دعوی ہے کہ ترین گروپ کے پرویز الہی سے روابط موجود تھے اور انہوں نے پرویز الہی کو متعدد بار قائل کیا کہ وہ خود وزارت اعلی کے لئے آگے آئیں۔مگر پرویز الہی نے حکومت کے آتحادی ہونے کے باعث ان کی بات کو قبول نہیں کیا۔ذرائع کا دعوی ہے منحرف اراکین نے کہا کہ  اگر وزیراعظم عمران خان آپ کو خود وزارت اعلی دیتے ہیں تو ہم پنجاب میں آپ کے ساتھ چلیں گے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پنجاب اور وفاق سے متعلق سینئر بیوروکریٹس نے پرویز الہی کی بطور وزارت اعلی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ایک دوسرے کے  ساتھ کہا ہیکہ ماضی میں جب وہ وزیراعلی تھے تو وہ افسران سے بڑی خوش اسلوبی سے ملتے تھے۔ان کا وزیراعلی بننا پنجاب کی عوام کے لئے بہت بہتر ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ ہائوس اور ظہورالہی پیلس سمیت گجرات میں بھی کارکنوں کا جوش ولولہ رہا لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے رہے اور اعلان کے بعد شام گئے پی ایم ایل (ق) لیگ کے دفاتر پر ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہا۔ اس صورت حال میں مسلم لیگ ق کے رکن قومی اسمبلی اور وزیر ہاوسنگ طارق بشیر چیمہ نے اعلان کیا ہیکہ وہ ووٹ عمران خان کے خلاف دینگے اور ساتھ انہوں نے وزارت سے استعفی  دے دیا ہے۔ان کا موقف ہے کہ ہاوسنگ کی میٹنگز اور متعدد حکومتی میٹنگز میں پرائم مینیسٹر نے انہیں بطور ق لیگ کے نامزد وزیر ہاؤسنگ کبھی شریک نہیں کیا۔اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میٹنگز میں بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اس لئے وہ عدم اعتماد کا ووٹ عمران خان کو نہیں دیں گے، چاہے انہیں ملک سے باہر ہی کیوں نا جانا پڑے، وہ کسی صورت عمران خان کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے۔ مسلم لیگ ق کے ترجمان کا یہ کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق کی قیادت اور تمام رہنما ایک پیج پر ہیں ان کے درمیان کسی بات پر اختلاف نہیں ہے۔ دوسری طرف سینیٹر کامل علی آغا جو نوائے وقت سے متعدد بار گفتگو میں یہ بات کہ چکے ہیں  کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی کی قیادت پر مسلم لیگ کے کارکن اور رہنمائوں کو مکمل یقین ہیں کہ ان کی قیادت ملکی مفاد اور عوامی مفاد کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کریں گی اور نہ کوئی ایسا فیصلہ کریں گے جو عوامی مفاد کے برعکس ہو ماضی میں ان کے عوامی مفاد اور ملکی ترقی کے پراجیکٹس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔مسلم لیگ ق ایک پیج پر ہے اور چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہی کے فیصلوں کا مکمل احترام کیا جائے گا۔مسلم لیگ ق کے سینئر رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ہم نے حکومت سے وزارت اعلی نہیں مانگی۔تحریک عدم اعتماد میں اب حکومت نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا سیاسی حکمت عملی اپنانی ہے۔مسلم لیگ ق کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط ہیں اور سیاسی لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ روابط رہتے ہیں۔مسلم لیگ ق میں فیصلوں کا اختیار چودھری پرویز الہی کو دیا ہے جو وہ فیصلہ کرے گے ہم سب قبول کریں گے  چودھری پرویز الہی کے فیصلے کے بعد پارٹی کے باقی رہنمائوں کی اہمیت نہیں رہتی کیونکہ ہم یہ اختیار سب ملکر چودھری پرویز الہی کو دے چکے ہیں۔ان کا مزیر کہنا تھا کہ میری عمران خان سے دوروز قبل ملاقات ہوئی تھی میں نے کہا تھا کہ ہماری طرف سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے ویسے بھی حکومت کے ساتھ 23 ایم این اے اتحادی ہیں کسی نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم۔نے وزارت اعلی نہیں مانگی باقی تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے لئے کام کرتی ہیں ہم بھی سیاست کررہے ہیں کیونکہ ہم منتخب نمائندے ہیں اور ہم عوام کو جواب دہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد آچکی ہے ہنڈیاں میں ابال آرہا ہے اب فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ کیا کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سارے میڈیا ہماری طرف ہی ہوجاتے ہیں کہ ہم کیا سوچتے ہیں ہم عوامی مفاد کے خلاف نہیں سوچ سکتے پنجاب کی وزارت اعلی کے متعلق کہا کہ دو روز قبل عثمان بزدار سے ہماری ملاقات ہوئی اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی وہ سو فیصد مطمین نظر ارہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ  جب بھء وزارت اعلی کی بات ق لیگ سے منسوب کرتا ہے تو ق لیگ کا نام اتے ہی ایک کرائم کا سین بنا دیا جاتا ہے کہ عثمان بزدار تو وزیراعلء قبول ہہں مگر ق لیگ نہیں۔ایسی روش ٹھیک نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت نے فیصلہ کرنا ہے جو بھی کرنا ہے جب ساری قیادت فیصلہ کرلے تو اس کو قبول کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم وزیراعظم کو کہ چکے ہیں کہ ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے تو پھر میڈیا ہمیں حکومت ے لئے خطرہ بنا کر پیش کرتا ہیمیں وزیراعظم کی شکل دیکھ کر نہ خوش ہوتا ہوں نہ ملاقات ہو تو نہ ناراض ہوتا ہوں۔حکومت کے ساتھ ہماری ملاقاتوں مین اور نام بطور وزیراعلی کبھی ڈسکس  نہیں ہوا حکومت کے ساتھ جو بھی کرنا ہے پارٹی قیادت نے کرنا ہے مونس الہی یا طارق بشہر چیمہ نے نہیں کرنا

ای پیپر-دی نیشن