• news

تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش باپ کے 4ارکان نے اپوزیشن کی حمایت کر دی


اسلام آباد (نامہ نگار‘ نمائندہ خصوصی) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے جہاں اپوزیشن کے 161اراکین نے تحریک کی حمایت کردی۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت اسمبلی اجلاس شروع ہوا اور تحریک عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہونے کے بعد ملتوی کردیا۔ قراداد پیش کیے جانے کے موقع پر حکومتی بینچوں سے شور شرابہ کیا گیا اور تحریک انصاف کے اراکین نے چور چور، پالش، چیری بلاسم، دیکھو دیکھو کون ہے چور ہے چور ہے کے نعرے لگائے گئے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تحریک پیش کرتے کہا کہ قومی اسمبلی کے رولز اینڈ پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007ذیلی شق 4کے تحت وزیراعظم کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پیش کر رہا ہوں۔ شہباز شریف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اراکین کی گنتی کی گئی جہاں حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) ،ایم کیو ایم، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے منحرف اراکین ایوان میں موجود نہیں تھے۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر قرارداد بحث کے لیے اپوزیشن کے 161اراکین کی حمایت پر منظور کرلی گئی۔ جس کے بعد تحریک عدم اعتماد 161اراکین کی حمایت سے منظور کی گئی تو قائد حزب اختلاف نے تحریک پر بحث کے لیے قرارداد پیش کی۔ شہباز شریف نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 95کی ذیلی شق ون کے تحت قرارداد میں یہ ایوان وزیراعظم عمران خان نیازی پر عدم اعتماد کرتا ہے۔ جمہوری وطن پارٹی کے رکن نوابزادہ طلال بگٹی نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ قرارداد بحث کے لیے منظور ہو نے کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کہا کہ اسمبلی کے قاعدے 37کے ذیلی قاعدے35کے تحت قرارداد پیش کر دی گئی ہے اور اب اس پر بحث جمعرات 31مارچ کو شروع کی جائے گی اس کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس 31مارچ (جمعرات) شام 4بجے تک ملتوی کردیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن جام عبدالکریم دبئی میں ہونے اور آزاد رکن علی وزیر جیل میں ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شرکت نہ کر سکے۔ اس سے قبل جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے ڈپٹی سپیکر کی اجازت سے الیکشن ایکٹ 2017میں مزید ترمیم کا بل 2022پیش کرنے کی تحریک پیش کی جو منظور کرلی گئی۔ ڈپٹی سپیکر نے ایجنڈے میں شامل چھٹے نمبر پر شامل آئٹم پیش کرنے کے اجازت دی اور ملتان سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے رکن قومی اسمبلی زین حسین قریشی نے 26ویں آئینی ترمیمی بل 2022(جنوبی پنجاب صوبے)کی قرارداد پیش کی۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ڈپٹی سپیکر پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ نے ایوان میں جو آئیٹم پیش کرنے کی اجازت دی وہ غیرمناسب تھی، اس لیے کہ عدم اعتماد کی قرارداد ایوان میں پہلے آچکی تھی۔ قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد اور حکومت کا پیش کردہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق آئینی ترمیم بل شامل تھا۔ جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی، بلوچستان عوامی پارٹی سمیت وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے حکمران اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ کے 342رکنی ایوان زیریں میں حکومت کے ارکان کی تعداد اب کم ہو کر 172ہو گئی ہے، جبکہ اپوزیشن کو اب 169ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے۔ اس وقت گیم ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہے جن کے قومی اسمبلی میں 7ارکان ہیں انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس طرف ہیں۔ ایم کیو ایم اب بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتوں سے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد منحرف ایم این ایز پہلے ہی حکومتی پالیسیوں پر اپنی تنقید کے ساتھ کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا قومی اسمبلی اجلاس سے قبل مشترکہ پارلیمانی پارٹی اجلاس منعقد ہوا جس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس میں قومی اسمبلی اجلاس کی حکمت عملی کے حوالے سے مشاورت کی گئی ذرائع کے مطابق متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں طے پایا کہ وقفہ سوالات مختصر رکھا جائے ضمنی سوالات نہ کیے جائیں تاکہ وقت بچا کر تحریک عدم اعتماد پیش ہوسکے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ حکومتی ارکان کی ہلڑ بازی یا شور شرابے کا جواب نہ دیا جائے۔ اسی طرح اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سپیکر کو اجلاس ملتوی کرنے کا کوئی موقع نہ دیا جائے۔ متحدہ اپوزیشن اجلاس میں طے پایا کہ تمام وقت کورم پورا رکھا جائے۔ قبل ازیں مشترکہ پارلیمانی پارٹی اجلاس میںشرکت کیلئے شہباز شریف آئے تو سابق صدر آصف علی زرداری نے انہیں وزیراعظم اور رانا ثناء اللہ کو وزیرداخلہ کہہ کر مخاطب کیا۔ متحدہ اپوزیشن کا بند کمرے میں اجلاس ہوا۔ شہباز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری‘ آصف علی زرداری‘ شاہ زین بگٹی سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔  بلوچستان عوامی پارٹی نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی  اور اپوزیشن کی قیادت جس میں  قائد اختلاف میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان، بی این پی کے صدر اختر مینگل  کے درمیان ملاقات ہوئی جس کے بعد پریس کانفرنس میں بلوچستان  عوامی پارٹی کے فیصلے کا اعلان کیا گیا۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اس فیصلے کا اعلان کیا جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ خالد مگسی نے اس کی تائید کی، ان کی پارٹی کے دوسرے راہنما بھی اس موقع پر موجود تھے۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ ہم متحدہ اپوزیشن کی طرف نے بلوچستان کے 4 اراکین اسمبلی کا عدم اعتماد کی تحریک میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونے پر ان کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس وقت انہوں نے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہم بلوچستان اور پاکستان عوام کے مفاد میں ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے اور ساتھ دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن پر الزام  کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کو  اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے، وہ  یہ بات کرتے ہیں، ان کا  فارن فنڈنگ کیس کے بارے  میں کیا رائے ہے، ہماری جمہوری جنگ ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں اور قوم کو  ثبوت دیں،کہ یہ مداخلت ہے  اور ملک کے وقار کے خلاف ہے تو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اگر غیر ملکی مداخلت ہوئی ہے، وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے تو پارلیمان میں آکر وہ خط پوری قوم کو دکھائں، اگر واقعی یہ بات سچ ہے تو میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ ان کی مہربانی ہے کہ میرے پاس آئے اور مجھے عزت دی اور ان سے مذاکرات کیے اور انہیں سمجھایا کہ بلوچستان کی اگر کوئی خدمت کرسکتا ہے تو اس وقت ہم اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے جو لوگ ہیں وہی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان ہے تو پاکستان ہے، اگر بلوچستان نہیں ہے تو پاکستان نہیں ہے، مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ خالد مگسی اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کے وہ اراکین جنہوں نے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دیا ہے، ان کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کی پارلیمانی بنیاد یا خیبرپختونخوا صوبہ ہے یا بلوچستان ہے، بلوچستان کے براہ راست منتخب نمائندگان صوبے کی ترقی کے لیے گامزن ہے اور ہم اس حوالے سے خود بلوچستان کی ترقی کے مدعی اور ان کے شانہ بشانہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عمران خان ڈوبتی کشتی ہیں، اب کوئی بات ان کو فائدہ نہیں دے سکتی، بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے کہا کہ آج بڑا اہم دن ہے، سارے مراحل پارٹی کے اراکین کے ساتھ مشاورت سے گزرے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس وقت ہمارے لیے موقع ہے کہ متحدہ اپوزیشن پچھلے تجربات کے بعد ایک نئے ارادے کے ساتھ آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کی دعوت قبول کیا اور ہم چاہتے تھے کہ نئے انداز میں اس ملک کو سنبھالا جائے اور بلوچستان پر پوری طرح توجہ دی جائے اور اس کے مسائل حل کیے جائیں اور لٹکا کر نہ رکھا جائے۔ خالد مگسی نے کہا کہ اسی بنیاد پر ہم نے سوچا کہ ایک قدم اٹھاتے ہیں کیونکہ ہم نے پہلے ساڑھے تین سال گزارے لیکن اس وقت گلہ شکوہ کرنا مناسب نہیں تاہم فیصلہ اچھی نیت سے کیا۔

ای پیپر-دی نیشن