مرکز کے بعد پنجاب میں بھی تحریک اعتماد پیش
شاہد اجمل چوہدری
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد ایوان میں بحث کیلئے منظور کر لی گئی۔ایوان میں اپوزیشن کے 161اراکین نے تحریک پر بحث کیلئے کھڑے ہو کراس کی حمایت کردی۔ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت قومی سمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو انہوںنے رولز اینڈپروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کی ذیلی شق 4کے تحت قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اعلان کیا۔
شہباز شریف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اراکین کی گنتی کی گئی جہاں حکومتی اتحادی مسلم لیگ(ق) ،ایم کیو ایم،بلوچستان نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے منحرف اراکین ایوان میں موجود نہیں تھے۔اس کے باوجودقومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر قرارداد بحث کے لیے اپوزیشن کے 161اراکین کی حمایت سے منظور کرلی گئی۔قائد حزب اختلاف نے تحریک پر بحث کے لیے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 95کی ذیلی شق ون کے تحت قرارداد کے مطابق یہ ایوان وزیراعظم عمران خان نیازی پر عدم اعتماد کرتا ہے۔قرارداد بحث کے لیے منظور ہو نے کے بعدڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے کہا کہ اسمبلی کے قاعدے 37کے ذیلی قاعدے35کے تحت قرارداد ایوان میں پیش کر دی گئی ہے اور اب اس پر جمعرات 31مارچ کو باضابطہ کارروائی شروع کی جائے گی۔ اس کے بعدانہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس 31مارچ (جمعرات)شام 4بجے تک ملتوی کردیا۔
اس سے قبل جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے ڈپٹی اسپیکر کی اجازت سے الیکشن ایکٹ 2017میں مزید ترمیم کا بل 2022پیش کرنے کی تحریک پیش کی جو منظور کرلی گئی۔ڈپٹی اسپیکر نے ایجنڈے میں شامل چھٹے نمبر پر شامل آئٹم پیش کرنے کے اجازت دی اور ملتان سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے رکن قومی اسمبلی زین حسین قریشی نے 26ویں آئینی ترمیمی بل 2022(جنوبی پنجاب صوبے)کی قرارداد پیش کی۔قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ڈپٹی اسپیکر سے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ نے ایوان میں جو آئیٹم پیش کرنے کی اجازت دی وہ غیرمناسب تھی، اس لیے کہ عدم اعتماد کی قرارداد ایوان میں پہلے آچکی تھی۔قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کے ایجنڈے میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد اور حکومت کا پیش کردہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق آئینی ترمیمی بل شامل تھا۔
قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بحث کیلئے منظور ہونے کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کو مزید ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہو گئی ہے ۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 ارکان اسمبلی اورجمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی سمیت وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے حکمراں اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے سے قومی اسمبلی کے 342رکنی ایوان میں حکومت کے ارکان کی تعداد اب کم ہو کر 172رہ گئی ہے، جبکہ اپوزیشن کو اب 169ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے۔یاد رہے پیپلز پارٹی کے رکن جام عبدالکریم دوبئی میں ہو نے اور آزاد رکن علی وزیر جیل میں ہو نے کی وجہ سے اجلاس میں شرکت نہ کر سکے۔
اس وقت گیم ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہے جن کے قومی اسمبلی میں 7ارکان ہیں انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس طرف ہیں،ایم کیو ایم اب بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتوں سے مذاکرات کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد منحرف ایم این ایز پہلے ہی حکومتی پالیسیوں پر اپنی تنقید کے ساتھ کھل کر سامنے آچکے ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ارکان کے طور پر نااہل ہونے کی قیمت پر بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کر سکتے ہیں۔
سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد اس کے سیکر ٹریٹ میں جمع ہونے کے بعدآئینی طور پر 14روز کی مدت کی معیاد ختم ہونے کے تین روز بعد جمعہ کو اپوزیشن کا طلب کردہ اجلاس بلایا تھا اور پارلیمانی روایت کے مطابق ہنگو سے پی ٹی آئی کے مرحوم ایم این اے خیال زمان کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد پیر تک یہ اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا، جبکہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہیں ہونے دی تھی۔ادھرجمہوری وطن پار ٹی کے رکن قومی اسمبلی اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور بلوچستان شاہ زین بگٹی نے وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفی دیدیا، اپنے استعفے میں شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا کہ میں نے استعفی وزیر اعظم کو بھجوا دیا ہے، اب متعلقہ ادارے اس حوالے سے ضروری اقدامات کریں۔خیال رہے کہ گزشتہ سال بلوچستان میں مستقل امن اور ترقی کے لیے ناراض بلوچوں سے بات چیت کرنے کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے شاہ زین بگٹی کو صوبے میں مفاہمت اور ہم آہنگی کے لیے اپنا معاون خصوصی مقرر کیا تھا، شاہ زین بگٹی کو وفاقی وزیر کے برابر عہدہ دیا گیا تھا۔وزیر اعظم عمران خان کے ناراض بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات کے بیان کے بعد حکومتی اتحادی جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی کابینہ کا حصہ بنایا گیا تھا۔