• news

قومی اسمبلی اجلاس ملتوی ، پرسوں فیصلہ کن دن ، اپوزیشن 175 ارکان لے آئی 

اسلام آباد (نامہ نگار، خبرنگار، نمائندہ خصوصی) قومی اسمبلی کا اہم اجلاس شروع ہونے کے چند منٹ بعد ہی ختم ہوگیا۔ وقفہ سوالات میں ارکان عدم اعتماد پر ووٹ کا مطالبہ کرتے رہے جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس اتوار 3اپریل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردیا اور بحث نہ ہوسکی۔ اجلاس ملتوی کیے جانے کے بعد اپوزیشن ارکان نے سپیکر کے ڈائس کا گھیرا ئوکر لیا، حکومت مخالف اور گو عمران گو کے نعرے لگائے۔ اجلاس ختم ہونے کے باوجود شہباز شریف، آصف زرداری اور بلاول سمیت اپوزیشن ارکان ایوان کے اندر موجود رہے جنہوں نے اجلاس سے جانے کے بجائے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کردیا۔ اپوزیشن لیڈر سمیت اپوزیشن کے 172سے زائد ارکان اسمبلی میں موجود تھے۔ وقفہ سوالات شروع ہوا تو ارکان سے کہا گیاکہ ایجنڈے کی کارروائی کے مطابق سوالات کریں جس پر ایک کے بعد ایک رکن کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک ہی سوال کیا کہ سپیکر عدم اعتماد کی ووٹنگ کب کرائیں گے؟۔ رکن قومی اسمبلی شازیہ مری، مریم اورنگزیب، شیخ روحیل اصغر نے فوری طور پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ میرا اور قوم کا ایک ہی سوال ہے کہ عدم اعتماد پر فوری طور پر ووٹنگ کرائیں۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ لگتا ہے کوئی بھی رکن سنجیدہ نہیں ہے، اسمبلی میں وقفہ سوالات کا ماحول ہی نہیں تھا، ماحول ایسا نہیں کہ کارروائی جاری رکھی جائے۔ اجلاس ملتوی ہونے پر وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر بحث شروع ہی نہ ہوسکی۔ اسی دوران حکومتی ارکان نے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رکن قومی اسمبلی خالد مگسی کیخلاف  نعرے لگائے گئے۔ اجلاس ختم ہونے کے باوجود دلچسپ صورتحال برقرار رہی، اپوزیشن ارکان نے اپنی نشستوں پر دھرنا دے دیا۔ اجلاس ختم ہونے کے اعلان پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی، ڈیسک بجائے اور اپنے ارکان کی گنتی کی۔ بعدازاں قومی اسمبلی کے باہر تمام اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج تحریک عدم پر بحث ہونی تھی لیکن ڈپٹی سپیکر نے پارلیمنٹ میں ارکان کی آواز کو پھر دبا دیا۔ آج پوری قوم نے دیکھ لیا کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے متحدہ اپوزیشن کے پاس پورے 172  بندے موجود ہیں۔ ہم نے سیکرٹری اسمبلی سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ آج تقاریر ہونی تھیں لیکن ڈپٹی سپیکر نے اپنی مرضی کی۔ انہوں نے کہا کہ 31 مارچ ہوگئی ہے لیکن آئین اور قانون کی مسلسل دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم کوئی غیر پارلیمانی بات نہیں کریں گے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم کے پاس عہدے پر برقرار رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا، سپیکر بھی آئین شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں اور اپنا نام تاریخ کے سیاہ حروف میں لکھوا لیا ہے۔ وزیراعظم نے نواز شریف پر اسرائیل کے ساتھ مل کر سازش گھڑنے کے جھوٹے الزامات لگوائے، ہم اس گھٹیا سطح پر نہیں جانا چاہتے تھے ورنہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ان کے فارن فنڈنگ کیس میں کون کون سے ممالک کے نام ہیں جو یہ چھپاتے رہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں ایک خاتون ان کی فرنٹ پرسن ہیں جنہوں نے اربوں روپے کی کرپشن کی اور دبئی پیسے بھجوائے، یہ ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں لیکن خود اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ یہ جس خط کا ذکر کرتے ہیں وہ کمیٹی کو بھیج دیا لیکن متحدہ اپوزیشن کو نہیں بلایا۔ مجھے زبانی پیغام ملا یہ محض جھوٹ اور فراڈ ہے ایسے میموز آئے روز آتے رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج اپوزیشن نے اسمبلی میں 175بندے لا کر یہ ثابت کردیا کہ اب ان کے پاس بھاگنے کے لیے کوئی راستہ نہیں بچا۔ انہوں نے ڈپٹی سپیکر کو استعمال کیا اور عدم اعتماد کی بحث سے بھاگ گئے لیکن یہ کب تک بھاگیں گے۔ یہ ہر کسی کے پاؤں پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ میری کرسی بچاؤ لیکن اب کوئی راستہ نہیں رہا، عزت والا طریقہ یہی ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دے دیں۔ اب این آر او کے لئے بہت دیر ہوچکی ہے۔ یہ چاہ رہے ہیں کہ جاتے جاتے جتنا نقصان پاکستان کو پہنچا سکتا ہوں پہنچا دوں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کو جس طریقے سے اقتدار ملا وہ انتہائی متنازعہ تھا لیکن جس طریقے سے ان سے اقتدار چھینا گیا وہ ایک جمہوری طریقہ ہے۔ اب یہ اپوزیشن کو موقع دیں اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے دیں۔ عمران خان اپنے وزراء کے ذریعے ہمارے ممبرز سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ معاف کردیں اور تحریک عدم اعتماد واپس لے لیں لیکن متحدہ اپوزیشن اس تجویز کو مسترد کرتی ہے۔ اسعد محمود نے کہا ماضی میں پاکستان کے وزرائے اعظم کو غیرجمہوری طریقوں سے علیحدہ کیا جاتا رہا اور وہ پوچھتے رہ جاتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا۔ آج ہم موجودہ وزیراعظم کی تشفی کرنا چاہتے تھے کہ انہیں کیوں نکالا جارہا ہے لیکن ان کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نہیں چاہتے کہ وہ یہ جان سکیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ووٹنگ کے روز ہمیں تحریک عدم اعتماد پر بحث کا موقع دیا جائے گا اور سپیکر اور ڈپٹی سپیکر آئین کو ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ مختلف ذرائع سے خبریں چلائی جارہی ہیں کہ اسلام آباد میں ایک لاکھ لوگ جمع کیے جائیں گے، اگر ایسا کچھ کیا گیا تو ہمارا بھی استحقاق ہے کہ اپنے ممبران کو تحفظ دیں۔ طاقت ہونے کے باجود ہم آئین اور قانون کا راستہ اختیار کررہے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بھی کریں گے، شہباز شریف کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھائیں گے۔ ان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنے کی اتنی تکلیف نہیں ہوگی جتنی شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر ہوگی۔ اختر مینگل نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن نے آج اپنی اکثریت ثابت کردی۔ کپتان میدان سے بھاگ جائے تو ان کی فوج بھی اسی طرح میدان سے بھاگ جاتی ہے۔ ایوان کو مزاحیہ تھیٹر بنادیا گیا ہے۔ اکثریت کھو جانے کے بعد ان کو پہلے ہی دن استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ بلاول بھٹو نے جن 175 ارکان کا ذکر کیا ان میں ابھی پی ٹی آئی کے 22منحرف ارکان شامل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود یہ کرسی سے چپکے ہوئے ہیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے بہت سے حربے آزمائے جارہے ہیں لیکن آج کے بعد آئندہ کے تمام فیصلے اسی سیاسی قیادت نے کرنے ہیں جو ابھی یہاں موجود ہیں۔ قبل ازیں شہبازشریف کی رہائش گاہ پر متحدہ اپوزیشن کے قائدین نے اجلاس میں سیاسی صورتحال اور تحریک عدم اعتماد پر مشاورت کی گئی۔172 ارکان قومی اسمبلی نے شرکت کی۔ اجلاس نے متحدہ اپوزیشن کے پاس نمبر گیم پوری ہونے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے ارکان قومی اسمبلی کی مطلوبہ سے زائد تعداد میں دستیابی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اجلاس نے آئین، قانون اور پارلیمانی جمہوری عمل کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق منطقی انجام تک پہنچانے کے فیصلے کا اعادہ کرتے ہوئے دوٹوک طور پر واضح کیا کہ عمران نیازی کو اپوزیشن کوئی این آر او نہیں دے گی۔ علاوہ ازیں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں بلاول نے کہا عمران خان کو میرا واضح پیغام ہے کہ ان کیلئے کوئی محفوظ راستہ نہیں ہے، عمران کیلئے نہ کوئی این آر او ہے، نہ ایمنسٹی اور نہ کوئی بیک ڈور ایگزٹ ہے، وہ غیرت مندانہ راستہ اختیار کریں، آپ ایک وقت میں اس ملک کے قومی کھلاڑی تھے، عوام کو اپنی جانب سے سپورٹس مین سپرٹ کا پیغام بھیجیں، آپ اپنی اننگ کھیل چکے اور ایک شفاف عمل کے ذریعے شکست بھی کھا چکے۔ ادھر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 3اپریل کو ہو گی۔ متحدہ اپوزیشن نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات کی جس میں سپیکر نے اپوزیشن کو یقین دہانی کرائی کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 3اپریل کو ہو گی۔ ادھر وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن قرارداد واپس لے کر اپنی عزت بچائے۔ بابر اعوان نے کہا کہ منحرف ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے اور منحرف ارکان کو آرٹیکل 63اے کے تحت ڈی سیٹ کرائیں گے۔شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کو ملک کے لیے سکیورٹی رسک قرار دے دیا ہے۔ عمران کے خطاب کا جواب دیتے ہوئے شہباز نے کہا کہ نیازی نے اقتدار پر فائز رہنے کی مایوس کن کوشش میں پاکستان کو کراس بالوں میں پہنچایا۔ ایک بار جب عمران اپنی تقریر مکمل کر لیں تو انہیں پارلیمنٹ میں 172 ممبران حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ صرف یہی چیز اہم ہے۔ عمران کی نااہلی، کرپشن اور تکبر نے ملک میں معاشی، سماجی اور خارجہ پالیسی کے بحران کو جنم دیا ہے۔ اپنی مایوسی اور مایوسی کے عالم میں نیازی پاکستان کے سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچا رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان پر ان تباہ کن تقاریر پر پابندی عائد کی جائے۔ شہباز شریف نے ایک بار پھر نشاندہی کی کہ نیازی نے آج تک وہ خط پارلیمنٹ اور عوام کو نہیں دکھایا اور وہ صرف دستاویز کے منتخب مواد اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات شیئر کر رہے تھے۔ شہبازشریف نے پارلیمانی ارکان کے عشایئے سے خطاب میں کہا کہ عمران نیازی نے پھر حماقتوں سے پاکستان کے مفادات پر ضرب لگائی۔ موصوف نے پاکستان کیلئے نئی مشکلات پیدا کرنے کی حماقت کی۔ عمران نیازی نے پاکستان کے دوستوں کو ناراض کیا تھا۔ بلاول نے کہا کہ میں سابق وزیراعظم کی تقریر نہیں دیکھتا، عوام ان کا جھوٹ پہچان چکے ہیں۔ اس شخص نے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا، سی پیک منصوبے کو بین الاقوامی سازش کے تحت سبوتاژ کیا۔الزام تراشی کرنا نامناسب ہے، ہمیں عدم اعتماد کیلئے لاکھوں لوگوں کی ضرورت نہیں ہے، عمران خان کو تقریر میں استعفیٰ دینا چاہیے تھا۔وزیراعظم نے کچھ دن پہلے بڑے جلسے کی ناکام کوشش کی، وزیراعظم کو پارلیمان میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ وزیراعظم اکثریت کھو چکے ہیں، ہم نے نیٹو سپلائی بند کی اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی، پیپلز پارٹی نے کبھی خارجہ پالیسی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔عمران خان کو چاہیئے کہ وہ لوگوں مزید مشکلات سے دوچار نہ کریں، کسی آئینی بحران کو پیدا نہ کریں اور اس میں ہی کی عزت ہوگی، الزام تراشی کرنا نامناسب ہے،پیپلز پارٹی نے کبھی خارجہ پالیسی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

ای پیپر-دی نیشن