صوبائی اسمبلیاں تحلیل کون کرے گا‘ ایڈوائس کون جاری کرے گا؟
کراچی (نیوز رپورٹر) ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائے بغیر ہی آئین کے منافی قرار دیا اور تحریک مسترد کر دی۔ جس کے بعدوزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج کر ایک پیچیدہ آئینی مسئلہ کھڑا کردیا ہے جس پر قانونی و آئینی ماہرین بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں، آٹھویں ترمیم کے بعد صدر مملکت کے پاس یا صوبوں کے گورنرز کے پاس یہ اختیارات نہیں کہ اپنی مرضی سے اسمبلیاں تحلیل کردیں۔ اس کیلئے آئینی ضروریات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ جیسے، صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائز کے بغیر قومی اسمبلی نہیں توڑ سکتا۔ اس کیلئے وزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت کو ایڈوائز بھیج دی، جس کے فوری بعد انہوں نے وفاقی کابینہ ختم کرکے قومی اسمبلی تحلیل کردی۔ لیکن اب صوبائی اسمبلیوں کا کیا ہوگا؟۔ کسی بھی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کیلئے وہاں کے وزیر اعلیٰ کی ایڈوائز کی ضرورت ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں تو کوئی وزیر اعلیٰ موجود ہی نہیں،کیونکہ عثمان بزدار مستعفی ہو چکے ہیں، نیا وزیراعلیٰ ابھی تک نہیں ہے۔ جب وزیراعلیٰ سرے سے ہے ہی نہیں تو گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائز کون بھیجے گا؟۔ دوسری طرف بلوچستان کا یقین نہیں لیکن فقط خیبرپختونخواہ کی اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وزیراعلیٰ سندھ صوبائی گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی کوئی ایڈوائز بھیجے۔ اس کا مطلب سندھ کی اسمبلی ٹوٹ نہیں سکتی، وہ میعاد پورا کرے گی۔ اور کیا حیران کن بات ہے کہ آئین کے آرٹیکل کے تحت صدر نے وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی ہے۔ جبکہ اس آرٹیکل کے مطابق اسمبلی میعاد پورا کرے تو قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیراعظم سمیت نگران حکومت قائم کی جائیگی۔ لیکن اسمبلی میعاد پورا کرنے سے پہلے ہی تحلیل ہوں تو اس کیلئے بھی نوے دن کے تحت انتخابات کرانا اور نگران حکومت بنانا ضروری ہے۔ وہی وزیراعظم تو برقرار نہیں رہ سکتا۔ نئے انتخابات کرانے والا نگران وزیراعظم یا ان کے خاندان کا کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ یہ ہے آئینی بحران جس کے بعد سپریم کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لیکر ملک کے کسی بھی ادارے کو کوئی بھی غیرآئینی قدم اٹھانے سے منع کردیا ہے۔ اس مختصر آرڈر کا مطلب غیرجمہوری قوتوں کو مداخلت سے روکنا ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں مزید عدالتی کارروائی چار اپریل، پیر کے دن ہوگی۔ اس کے بعد عدالتی فیصلہ جو بھی آئے کیونکہ آئینی بحران کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے۔ دیکھیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ عمران خان نے جو کرنا تھا کرگذرا، ملک کی تاریخ اس عمل کو ہمیشہ سیاہ قدم کے طور پر یاد رکھے گی۔
صوبائی اسمبلیاں