جونیجو کیس میں عدالت نے قرار دیا الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو گیا اسمبلی بحال نہیں ہو سکتی‘ قانونی ماہرین
لاہور (شہزادہ خالد) آئینی بحران کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے وار چلا رہے ہیں۔ دونوں جانب سے آئین کو ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار آئینی و قانونی ماہرین نے اپنے رد عمل میں کیا ہے۔ آئینی ماہرین اظہر صدیق، مشفق خاں، ندیم بٹ و دیگر نے کہا ہے کہ جونیجو، بینظیر اور نواز شریف حکومتیں صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 58(2)b کے تحت کارروائی کرتے ہوئے توڑ دیں۔ جس کے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر آئین کے آرٹیکل 58(2)b کو ختم کر دیا جس کے بعد بظاہر صدر پاکستان کی پوزیشن کمزور نظر آئی اور 58 ٹو بی کی لٹکتی تلوار ختم ہو گئی لیکن آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت صدر وزیر اعظم کی ایڈائس پر اسمبلی کو تحلیل کر سکتا ہے۔ رول 28 کے تحت سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے۔ سپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا۔ جونیجو کیس میںعدالت کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ اسمبلیاں 58(2)b کے تحت توڑی گئی ہیں۔ آرٹیکل 199 کے تحت اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو دیکھا جائے گا کہ بنیادی حقوق انفرادی ہے یا اجتماعی۔ انفرادی حقوق کی خلاف ورزی کو اجتماعی حقوق پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس لئے اسمبلی بحال نہیں ہو سکتی۔ موجودہ صورتحال میں سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے سے متعلق از خود نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔ مشفق خان نے کہا کہ آرٹیکل 95 وزیراعظم پر کسی چارج یا الزام کی بات نہیں کرتا۔ عدم اعتماد کے ووٹ کے لئے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں۔ ندیم بٹ نے کہا کہ آرٹیکل 95 میں بحث نہیں صرف ووٹنگ کا ذکر ہے۔ رول 28 کے تحت سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے۔ قائم مقام سپیکر کیلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے ارکان کو غدار قرار دیدیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ دیکھے گی کہ کیا۔ رولنگ آئینی ہے یا نہیں۔ بے ضابطگی ہے یا قواعد کی خلاف ورزی؟ سپیکر کس سٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟۔ مدثر چودھری نے کہا کہ سپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا ذکر ہے، اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی۔