• news

سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اسطرح کی رولنگ دے سکتا ہے چیف جسٹس

 اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، لیکن جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے سپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ وکیل ن لیگ اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے آج شام اجلاس بلایا ہے، لیکن اسمبلی کا عملہ ڈپٹی سپیکر کا حکم نہیں مان رہا، لاہور میں حالات کشیدہ ہیں، لگتا ہے آج بھی وزیراعلی کا الیکشن نہیں ہو سکے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی طور پر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں، عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، یک طرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟۔ تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظرانداز کیا جائے اور عدالت ان کے حق میں فوری مختصر حکمنامہ جاری کرے، کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور آواری ہوٹل لاہور میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کونسل اجلاس کے منٹس کدھر ہیں، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے، کیا سپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، ڈپٹی سپیکر نے رولنگ میں نتیجہ اخذ کیا ہے، ڈپٹی سپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا سپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی facts پر جا سکے، اگر ایسا کوئی مٹیریل موجود ہے؟ ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟۔ آپ نے یہ بھی بتانا ہے، فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔ بابر اعوان نے بتایا کہ سفارتکار نے دوسرے ملک کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا پیغام تین افراد کو پہنچایا، ایمبیسی کے ذریعے ہیڈ آف مشن، ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور دفاع اتاشی کو پیغام دیا گیا، ہمارے سفارتکاروں کی بیرون ملک ملاقات کے بعد سات مارچ کو مراسلہ آیا، ہمارا فارن آفس اس پر نظر ڈالتا ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ فارن پالیسی کا معاملہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک پولیٹیکل پارٹی کی جانب سے نہ آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے، ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے۔ بابر اعوان نے درخواست کی کہ کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟۔ فارن آفس نے جو بریفنگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کردی۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ مراسلے میں چار چیزیں سامنے آئیں، فارن آفس نے مراسلہ دیکھ کر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کیساتھ میٹنگ کی، میں بات اشاروں میں بتا رہا ہوں، فلاں فلاں مسئلے پر وہ ملک اس ملک کے پرائم منسٹر سے ناراض ہے، تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھر ڈیش ڈیش ہے، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پھر سب ٹھیک ہے، آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد آ جاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا۔ بابر اعوان نے ترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترجمان پاک فوج نے کہا قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کے اعلامیہ سے متفق ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفنگ پر کیا فیصلہ کیا؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جن پر الزام لگایا گیا ان کیخلاف کیا ایکشن لیا گیا۔ بابر اعوان نے جواب دیا کہ حکومت نے ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، وزیراعظم اور کابینہ نے احتیاط سے کام لیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر عمران خان کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے؟۔  بابر اعوان نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے، وزیراعظم تفتیش کار نہیں اس لئے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنے کی منظوری سے پہلے نمٹایا جا سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فلور کراسنگ ہر جماعت کیساتھ ہوتی رہی ہے، سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جاتے ہیں، وہی چہرے ہر بار ایک سے دوسری جگہ نظر آتے ہیں۔ بابر اعوان کے بعد صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کردیا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی، عدالت بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہو گا، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمنٹ میں مداخلت ہے، سپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے، سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو سپیکر کا ہر فیصلہ ہی عدالت میں آئے گا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی؟۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت کو سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان نے پوچھا کہ سپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ سپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ سپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں، لیکن جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے، آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی، اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں، بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی، تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر رولنگ نے نئی روایت قائم کی اور ایک نیا رستہ کھول دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی اجلاس کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے وکیل نے پیش ہوکر بتایا کہ اسمبلی میں کافی توڑ پھوڑ ہوئی تھی اس لئے اجلاس 16 اپریل تک ملتوی ہوا، ڈپٹی سپیکر آج صبح سے غائب ہیں ان سے رابطہ نہیں ہو رہا، آج شام ہونے والا اجلاس کا نوٹیفکیشن جعلی ہے۔ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے اس لئے الیکشن نہیں ہونے دیا جا رہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سسٹم تعاون نہ کر رہا ہو تو آئینی عہدیدار اختیار استعمال کر سکتے ہیں، ڈپٹی سپیکر چاہیں تو اجلاس باغ جناح میں بھی بلا سکتے ہیں، پنجاب میں آئیڈیل حالات ہیں کہ عوام سے رجوع کیا جائے، قومی اسمبلی کے ارکان کا کنڈکٹ بہت اعلیٰ ہے۔ عدالت نے سماعت کل صبح 9:30تک ملتوی کردی۔
 سپریم کورٹ 

ای پیپر-دی نیشن