• news

اسمبلی بحال ، کل عدم اعتماد پر ووٹنگ

اسلام آباد (اعظم گِل) سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور قومی اسمبلی کی تحلیل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کو بحال کردیا ہے جبکہ 9 اپریل ہفتہ کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے اجلاس بلانے کی بھی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے، نے 5 روز مقدمہ کی سماعت کے بعد از خود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا ہے۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ پانچ رکنی لارجر بینچ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش جبکہ صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین اپریل کی صورت میں بحال کردیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم بھی دیا ہے اور ہدایت کی کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم اپنا کام جاری رکھ سکیں گے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان بطور وزیراعظم جبکہ ان کی کابینہ کے ارکان کی حیثیت بھی بحال ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کردی۔ مختصر فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، ووٹنگ کرائے بغیر اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ کیا جائے، صدر کے نگران حکومت کے احکامات کو بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہ روکا جائے اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے۔ جمعرات کی صبح چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے موجودہ سیاسی صورتحال پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع کی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایز نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنا دیا اور سابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے، ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کیلئے انتہائی معمولی سی بات ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے  ہم کوئی حکم نہیں دیں گے، آپ پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لیکر جائیں۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیئے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔ چیف جسٹس نے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹایا تو صدر کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع  کئے۔ درمیان میں ن لیگی وکیل  اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ارکان صوبائی اسمبلی عوام کے نمائندے ہیں، عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟۔ صدر کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ اس دوران جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اس سے تحفظ ہوگا؟۔ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟۔ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟۔ علی ظفر نے کہاکہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟۔ علی ظفر نے موقف اپنایا کہ  اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟۔ اس دوران وکیل نے ایک کیس کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلہ کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے لیکن یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائین کھینچنا پڑے گی۔ علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا لیکن عدالت نے جونیجو کی حکومت کو خاتمہ کو غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے اسمبلی کا خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔ علی ظفر نے کہاکہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟۔ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟۔ ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔ الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ منحرف ارکان کے باوجود تحریک انصاف اکثریتی جماعت ہے،  اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آوٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایاکہ  سیاسی معاملے کا جواب بطور صدر کا وکیل نہیں دے سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بظاہر اس معاملے میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے توکیا حکومت الیکشن کا اعلان کردے؟۔ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا یہ قومی مفاد ہے،۔ وکیل امتیازصدیقی نے کہاکہ  عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی، عدالت کے سامنے معاملہ ہائوس کی کارروائی کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی،  اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں۔ امتیاز صدیقی نے کہاکہ معذرت کیساتھ مائی لارڈ، 7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اور عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔ امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے امتیاز صدیقی سے سوال کیا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟  ڈپٹی سپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟۔ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ ڈپٹی سپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نہ کریں۔ چیف جسٹس نے سوال کیاکہ سپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن  نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا،  وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔ امتیاز صدیقی نے کہا وزیراعظم نے کہا اگر بدنیت ہوتا تو اپنی حکومت ختم نہ کرتا۔ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ میں علی ظفر کے دلائل بھی  اپناؤں گا اور مزید اپنے دلائل بھی دونگا، نعیم بخاری نے کہاکہ سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا،  پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال اٹھایاکہ ڈپٹی سپیکر کے پاس رولنگ کا مواد کیا تھا،نعیم بخاری نے کہاکہ مجھے گزارشات کو فریز کرنے دیں،عدالت کے سوالات کا جواب دونگا، جسٹس مظہر نے کہاکہ ہم بھی آپکو سننے کیلئے بے تاب ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ آپ کافی فریش لگ رہے ہیں، بتائیں کہ کیا سپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟نعیم بخاری نے  سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیاکہ کیا زیرالتوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے،  پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن سپیکر کا اختیار ضرور ہے، نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے،اس لئے  سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہئے،۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس مظہر عالم نے سوال کیاکہ رولنگ پرسپیکر اسد قیصر کے دستخط ہیں۔نعیم بخاری نے کہاکہ جی وہ آج بھی سپیکر قومی اسمبلی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کا مطلب نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی، عدالت بھی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرکے بعد میں خارج کرتی ہے۔موشن اور تحریک دونوں آپس میں رشتہ دار ہیں ، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کاآئینی مینڈیٹ ہے، کیا ڈپٹی سپیکر آئینی مینڈیٹ سے انحراف کر سکتا ہے،؟کیا ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد ہونے کا مطلب ووٹنگ کیلئے پیش ہونا نہیں؟  تحریک عدم اعتماد کے سوا پارلیمان کی کسی کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں، جسٹس جمال مندوخیل  نے مزید سوال کیاکہ کیا اسمبلی رولز کا سہارا لیکر آئینی عمل کو روکا جا سکتا ہے؟کیا سپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر کوئی کارروائی ہو سکتی ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ کس نے دی تھی؟ چیف جسٹس نے کہاکہ  پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں، جسٹس جمال خان نے سوال کیاکہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟  وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چائیے تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا،اس دوران نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے۔جسٹس جمال خان نے سوال کیاکہ رولنگ ڈپٹی سپیکر نے دی، رولنگ پر دستخط سپیکر کے ہیں ،رولنگ پر ڈپٹی سپیکر کے دستخط کدھر ہیں،پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی سپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی،  ڈپٹی سپیکر اجلاس میں موجود تھے، نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ممکن ہے کچھ ارکان سپیکر کی رولنگ سے مطمئن ہوتے کچھ نہ ہوتے،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا ہے،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے ڈپٹی سپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو،ڈپٹی سپیکر نے رولنگ کے اختتام سے پہلے سپیکر اسد قیصر کا نام پڑھا، جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ فواد چودھری نے عدم اعتماد کی آئینی حیثیت پر رولنگ مانگی، ایوان میں عوام کے منتخب ارکان موجود تھے، ڈپٹی سپیکر نے ان کے خلاف رولنگ دیدی، کیا عوامی نمائندوں کی مرضی کیخلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں؟  نعیم بخاری نے کہاکہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے موقف اپنایا کہ28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد لیو گرانٹ ہوئی، چیف جسٹس نے سوال کیاکہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے ؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہائوس لیو گرانٹ کرتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ازراہ تفنن استفسار کیااٹارنی جنرل صاحب کیا یہ آپکا آخری کیس ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر آپکی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے، جسٹس جمال خان نے کہاکہ پوری بات تو سن لیں،ہم توچاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گئی،  قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں ،وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہیں کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیر اعظم کا آپشن ختم کردیا گیا ہے، ہمارے آئین میں وزیر اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا،  ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ سپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئے عدالت نہیں آ سکتا، چیف جسٹس نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے،تاہم پارلیمانی کارروائی کو مکمل ایسا استثنی نہیں سمجھتا کہ کوئی آگ کی دیوار ہے، پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرے گی، اگر سپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔جسٹس مینب اختر نے کہاکہ سپیکر ایوان کا نگران ہے،سپیکر صرف اپنی ذاتی تسکین کیلئے نہیں بیٹھتا، سپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے باقی ممبران کو گڈ بائے کہہ دے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20فیصد یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں،  اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا؟ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائے گا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے،  تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر لیو گوانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی،تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ سپیکر نے قرار دیدیا کہ تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ اگر سپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا، تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 لوگوں نے ووٹ کیا تھا، اگر 68 لوگ تحریک پیش کرنے کی منظوری اور 100 مخالفت کریں تو کیا ہوگا؟ ان کا کہنا تھاکہ  ایوان کی مجموعی رکنیت کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی،  آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایک بات تو نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے،دیکھنا ہے اب  اس سے آگے کیا ہوگا،  اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا،میرا مقصدنئے انتخابات کا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے،جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔عدالت نے آئین کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی سپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں، نتائج میں نہیں جائینگے،چیف جسٹس نے کہاکہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا،آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے،اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا، ۔ اس دوران اپوزیشن لیڈرشہباز شریف نے کہاکہ عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا،عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی، سپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی، شہباز شریف نے کہاکہ ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا،  جو بلنڈر ہوئے انکی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا، عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے،  پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے،  بطوراپوزیشن لیڈر چارٹر آف اکنامک کی پیشکش کی، 2018 میں ڈالر 125 روپے کا تھا، اب ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، پارلیمنٹ کو اس کا کام کرنا چاہیے، پارلیمنٹ ارکان کو فیصلہ کرنے دینا چاہئے،پی ٹی آئی نے بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی تھی، عوام بھوکی ہو تو ملک کو قائد کا پاکستان کیسے کہیں گے، شہباز شریف نے کہاکہ مطمئن ضمیر کیساتھ قبر میں جاؤں گا،سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کیلئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے،  چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ شہباز شریف نے جواب دیا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت فائدے میں رہتی ہے، سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرینگے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی،شہباز شریف نے کہاکہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے، جسٹس جمال خان نے کہاکہ آئین کی مرمت ہم کر دینگے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنا دورانیہ رہے گا؟ شہبازشریف نے کہاکہ پارلیمنٹ کا ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے،اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کرینگے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے،سیاست میں سب کا احترام ہے۔عدالت کسی کو بے توقیری نہیں کرنے دے گی  میرٹ پر نہیں جا رہے، ہمارے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے، سیاسی لوگ سپریم کورٹ کے احاطہ کو ناپاک نہ کریں، احاطہ عدالت میں سیاسی گفتگو ہوتی، ہم پر تنقید اور لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ قوم قیادت کیلئے ترس رہی ہے،۔مجھے کہا گیا باہر میڈیا ٹاک پر پابندی لگا دیں،لیکن میں نے عملے کو کہا سیاستدانوں سے کمرہ عدالت میں درخواست کروں گا، اس دوران رضا ربانی نے کہاکہ نئے انتخابات کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ الیکشن اور اسٹیبلشمنٹ دونوں متنازعہ ہوئے ،ان حالات میں اصلاحات کے بغیر انتخابات کا فائدہ نہیں ہوگا، سپریم کورٹ بنچ کے سامنے بلاول بھٹو بھی پیش ہوئے اور کہا کہ اپنے لیے حکومت بنانا ہماری ترجیح نہیں، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے اور اسی غیر قانونی رولنگ نے وزیراعظم کی جمہوریت پر سوال اٹھایا، ہم حکومت بناکر اتنخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کیا انتخابی اصلاحات کی تجویز ٹیبل ہوئی؟ کیا انتخابی اصلاحات کے لیے کوئی بل جمع کروایا ہے؟ ہمیں پتا ہے آپ کے خاندان نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں، آپ کی سینیٹ میں جو انتخابی اصلاحات کی تجاویز ہیں وہ منگوا لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو آپ کا شکریہ کہ آپ نے بہت زبردست بات کی اور آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا، ہمیں معلوم ہے کہ بلاول بھٹو کی تین نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن