سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کا سیاسی منظرنامہ
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے بعد سے ملکی سیاسی فضا میں جو ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ وہ اب ایک طوفان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ افراتفری اور انتشار کی اس کیفیت میں قوم کی نظریں اعلیٰ عدلیہ کی طرف مرکوز رہیں۔ جہاں قومی اسمبلی کے ڈپٹی قاسم خان سوری کی زیرصدارت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے ہونیوالے اجلاس میں تحریک کو مسترد کئے جانے سے متعلق رولنگ کی آئینی حیثیت کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے ازخود اختیارات کے تحت لئے گئے نوٹس پر چار روز تک بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا اور شام ساڑھے سات بجے صادر کئے جانے کا اعلان ہوا۔ ڈپٹی سپیکر کی مذکورہ رولنگ کی حمایت اور مخالفت میں دونوں طرف کے وکلاء نے اپنے اپنے دلائل دیئے۔ مختلف نکات پر تفصیلی بحث ہوئی اٹھائے جانیوالے متعدد آئینی سوالات پر بھی غور کیا گیا۔ فاضل ججز کی طرف سے ریمارکس بھی دیئے جاتے رہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے فیصلہ آنے تک سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ عوام الناس میں بھی اضطراب قائم رہا۔ وزیراعظم عمران خان اور انکی جماعت عوام الناس کو میدان میں نکلنے کی ترغیب دے رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے اسمبلی کی بحالی کی تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آج جمعۃ المبارک کو’’ یوم تحفظ آئین ‘‘کے طور پر منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں بھی کم و بیش قومی اسمبلی والا عمل ہی دہرایا گیا ہے۔ جہاں سپیکر پنجاب اسمبلی نے پہلے 6 اپریل کو طلب کیا جانیوالا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر کردیا لیکن اعلیٰ عدلیہ کے استفسار پر جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اجلاس کے انعقاد کی یقین دہانی کروائی تو ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری نے دوبارہ 6 اپریل ہی کو اجلاس طلب کرنے کا حکمنامہ جاری کردیا۔ لیکن اس روز غیر متوقع طور پر پنجاب اسمبلی کو تالا لگوا دیا گیا اور مرکزی دروازے پر خادار تاریں لگا کر ارکان اسمبلی کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
اپوزیشن نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے مقامی ہوٹل میں اپنے طور پر اجلاس طلب کرلیا جو پینل آف چیئرمین شازیہ عابد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں 200 سے زائد ممبران اسمبلی نے شرکت کی۔ اجلاس میں سپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے اٹھائے
جانیوالے اقدامات کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔ بعدازاں قائد ایوان کا چنائو عمل میں لانے کیلئے قرارداد پیش کی گئی اور گنتی کے نتیجے میں حمزہ شہباز کو 199 ارکان نے اعتماد کا ووٹ دے دیا اور انہیں قائد ایوان منتخب کر لیا گیا۔ دوسری طرف 6 اپریل کو دوبارہ اجلاس طلب کرنے کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے فیصلے کو حکمران جماعت نے مسترد کر دیا اور اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروادی گئی جس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت کے بعض اپنے ارکان نے بھی اس کی مخالفت کر دی اور اس طرح معاملہ متنازعہ ہو گیا ہے۔ ۔ تاہم ترجمان سپیکر پنجاب اسمبلی کے مطابق اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل ہی کو ہوگا۔ ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری نے کہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی خود وزیر اعلی کے امیدوار ہیں لہذا سپیکر کے اختیارات میرے پاس ہیں ۔اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے باوجود اسمبلی اجلاس کی صدارت میں خود کروں گا۔ کیونکہ رولز اس کی اجازت دیتے ہیں۔حمزہ شہباز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون توڑنے والوں کو نتائج کا بخوبی علم ہونا چاہیے۔اپوزیشن کی طرف سے احتجاجی مظاہرے اور امن و امان کی صورت حال کے پیش ِ نظر محکمہ داخلہ پنجاب نے پنجاب اسمبلی کے اطراف میں 500 گز کی حدود میں دفعہ 144نافذ کر دی ہے ۔ پنجاب حکومت نے لاہور میں پندرہ روز کے لیے رینجرز کو بھی طلب کر لیا ہے ۔ دریں اثناء متحدہ اپوزیشن کا سربراہی اجلاس مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ جس میں مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف‘ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال‘ پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف‘ نوید قمر‘ اے این پی کے میاں افتخار‘ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اخترمینگل‘ جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگتی اور دیگر رہنمائوں نے شرکت کی جس میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال پر مشاورت کی گئی۔ نگران وزیراعظم کے تقرر کے معاملے میں حکومت سے مشاورت کے حوالے سے بھی گفت و شنید ہوئی اور حکومت کیلئے میدان خالی نہ چھوڑنے کیلئے بھی ممکنہ حکمت عملی پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے وفاقی پارلیمانی نظام کے تحفظ کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی طرف سے احتجاجی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں اس آئینی بحران کے حل کیلئے جلد انتخابات کی تجویز پیش کی جارہی ہے۔ سابق وزیر قانون فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ملکی استحکام کی طرف جانے کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں سیاسی قیادتیں آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ تحریک انصاف اور اسکی مخالف جماعتوں کے مابین الزام تراشی کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے اور معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے ہیں۔ ان حالات میں ملک اور قوم کے وسیع تر مفادات کا تقاضا ہے کہ سیاست میں موجود تلخی کو کم کیا جائے۔ منفی حربے استعمال کرنے اور ایک دوسرے کیلئے ’’ غدار ‘‘ او ر’’ ریاست کے باغی‘‘ ایسے القابات استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ تحمل‘ رواداری اور برداشت سے کام لیتے ہوئے اس جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جائے۔ جس پر اس ملک کی سیاست کا دارومدار ہے۔ انتہاء پسندی تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے اس لئے اعتدال پسندی کا راستہ ہی اختیار کرنے میں ہم سب کی عافیت اور ملک و قوم کا مفاد پنہاں ہے۔